الجھے ہیں سکولوں میں ایس او پیز کے دھاگے


وطن عزیزمیں ہر کام کی انجام دہی کچھ اس قرینے سے کی جاتی ہے کہ ہونق نتائج کے سوا کچھ ہاتھ نہیں رہتا۔ تعلیم کے شعبے کو ہی دیکھئیے، لگتا ہے پورے ملک کا کرونا سکولوں میں گھس بیٹھا ہے جو نکلنے کا نام نہیں لے رہا۔ غور کریں تو اندھا دھند آبادی کے سبب ہر طرف انسانوں کا سیلاب ہے۔ بازاروں، منڈیوں، گھروں، گلیوں، سڑکوں، کھیل کے میدانوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ شادی بیاہ، جنازے اور ٹورنا منٹ دھڑلے سے جاری ہیں جہاں ہزاروں انسان سر جوڑے پھرتے ہیں۔

مجال کہ حکومت کو وہاں کوئی تردد ہو، بلکہ سرکاری سر پرستی میں سینکڑوں ایونٹس ہو رہی ہیں پر سرکاربے سروکار کو کرونا محض سکولوں اور کلاس رومز میں نظر آ رہا ہے۔ مضحکہ خیزیوں کی معراج ہے کہ رکشوں، ویگنوں اور گاڑیوں میں لدے درجنوں طلباء و معلمین پر سکول پہنچنے پہ سماجی فاصلہ فرض عین ہے جبکہ سکول سے نکلتے ہی سبھی احتیاطیں جوتے کی نوک پہ رکھنا مستحب ٹھہرجاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اگر کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو اس کا موجب گھر اور معاشرہ ہے، سکول نہیں۔

صرف ایسے بچوں کو سکول نہ بھیجا جائے۔ اب اساتذہ پورا دن بچوں کو بٹھانے اٹھانے میں لگے ہیں اور کل کیوں نہیں آیا اور آج کیوں آئے ہو کے استفسار جاریرہتے ہیں۔ تدریسی سرگرمیاں پھاڑ میں گئیں کیونکہ کمروں، فرنیچر اور دیگر لوازمات کی ایس او پی نا ممکن ہو چکی ہے۔ اوپر سے حیلوں بہانوں سے معطلیوں کے سلسلے شیطان کی آنت بنتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے حکومت نے اساتذہ کو گھر بیٹھ کر چھ ماہ تنخواہ لینے کا مزہ چکھانے کی ٹھان لی ہے۔

ایسے میں تعلیم کی مراد ہمیں راس آتی نظر نہیں آتی۔ گویا اب حکومت کو اجالوں میں بھی دور کی سوجھنے کی خو پڑتی جارہی ہے۔ زندگی میں پہلی بار ہماری جہالت اور حفظان صحت کے اصولوں سے انحراف کام آیا اور بفضل خدا نفسیاتی قوت سے کرونا سے محفوظ رہے۔ اب خدا خدا کرکے سکول کھل ہی چکے تو پورے ملک میں صرف سکولوں کو کرونا کی آماجگاہ ثابت کرکے تعلیمی عمل کو کیوں سبوتاژ کیا جا رہا ہے؟ بقول شاعر

الجھے ہیں سکولوں میں ایس او پیز کے دھاگے

افسر میرے پیچھے ہیں کرونا میرے آگے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).