آزاد ریاست جموں و کشمیر: سیاحوں کے لئے ایک جنت، مگر کیسے؟


آج سے چند سال پہلے بینک کی طرف سے بہت سے ممالک کی سیر کا موقع ملا۔ ان ممالک میں ترکی، برطانیہ، فرانس، روس، چین، سری لنکا، ملائشیا، تھائی لینڈ اور دوسرے کئی ایک ملک شامل ہیں۔ ترکی میں ہم نے جب انتالیہ کا پانچ دن کا ٹور کیا تو ایک دن ہمارے ٹور گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ترکی سیاحت سے سالانہ پچیس ارب ڈالر کماتا ہے۔ اس سے ان کے ملک کی ایئر لائن، ہوٹل اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے کاروبار، سفر کی سہولت کے ساتھ جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے کاروبار اور مقامی چھوٹی چھوٹی صنعتوں نے بہت ترقی کی ہے۔

پاکستان اور ہماری ریاست آزاد جموں و کشمیر میں اتنے زیادہ سیاحتی مقامات ہیں اور ہمارے پاس اتنا قدیم اور تاریخی ورثہ ہے، جس سے ہم بھی ساری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حکومت نے پچھلے سال اور حالیہ چند ہفتوں میں سیاحت کے فروغ کے لئے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ ان میں گزشتہ برس آرکیالوجی کانفرنس اور چند دن پہلے ڈڈیال کے قلعہ رام کوٹ میں ایک فنکشن شامل ہے۔ حکومتی اقدامات زیادہ تر کاغذی طور پر ہی مکمل ہوتے ہیں گراؤنڈ پر تو ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بہت سارے اقدامات ہماری افسر شاہی کے سرخ فیتے کی نذر ہو جاتے ہیں۔

سیاحت کا مطلب بزنس یا لذت او ر راحت کے لئے اندرون یا بیرون ملک سفر ہے۔ ورلڈ یورو مانیٹر فنانشل سروسز کے مطابق اگر کوئی آدمی کسی بھی ملک کے کسی شہر میں چوبیس گھنٹے گزارتا ہے تو اسے سیاح کا نام دیا جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی حکومتوں نے سیاحت کو ایک صنعت کا درجہ دیا ہے۔ اس وقت یہ صنعت سیاحت کی مختلف مصنوعات اور خدمات کی وجہ سے چل رہی ہے۔ گو کہ سیاحت کی صنعت بہت ہی لچکدارہے لیکن اس کے باوجود اس کی مصنوعات کو بہت معیاری بنانے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

اس ضمن میں مختلف صارفین کی متنوع پسند اور ڈیمانڈ کے لئے کمپنیوں کو سیاحت کے لئے مارکیٹنگ کرنی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ مختلف سیاحوں کی پسند ان کے ذاتی تجربہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ یہ سیاحوں کی یاد میں محفوظ رہتی ہیں یا پھر وہ سیاحوں کی مختلف مقامات سے خریدی ہوئی اس جگہ سے جڑی یادگاروں کی شکل میں ان کے پاس ہوتی ہے۔ جب تک کوئی سیاح اپنی سیاحت کے تجربات نہ لکھے ان کا پتہ نہیں چلتا۔ عموماًسیاحت کے فروغ کے لئے حکمت عملی تشکیل دیتے وقت مندرجہ ذیل پانچ بنیادی باتوں کی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے موزوں اور متوازن مجموعہ سے ہم سیاحت کی ایک بہترین حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔

1۔ کشش: اس میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جو سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ مختلف مظاہر قدرت۔ فطرت کے حسین مناظر۔ خوبصورت جھیلیں۔

ساحل سمندر۔ مختلف تاریخی اور قدیم عمارات۔ پرانے محلات۔ میوزیم۔ تاریخی و تمدنی اور ماورائی تعمیرات ان میں شامل ہیں۔ جس ملک میں جتنے زیادہ پرکشش مقامات ہوں گے، وہاں سیاحوں کی تعداد بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ جیسے ایفل ٹاور، لندن آئی، چین کے بادشاہوں کے محلات وغیرہ۔

2۔ رسائی: یہ ان مقامات تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ مندرجہ بالا مقامات تک سیاحوں کے پہنچنے کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ اس میں ملک کی ایئر لائن۔ ریلوے کا نظام، پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسی سروس شامل ہے۔ ٹریفک کا ایک مربوط اور سستا نظام سیاحت کے فروغ کے لئے بہت ضروری ہے۔

3۔ قیام گاہ: سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے لئے سستا اورسہولیات سے مزین قیام و طعام کا بندوبست اور دوران سفر قیام کی سہولیات۔ اس میں صاف ستھرے اور تمام بنیادی سہولتوں سے مزین سستے اور بجٹ ہوٹل، ہوسٹل۔ اور خود کار کیمپنگ کی سہولیات۔ لوگوں نے اس کے لئے گھر بھی بنائے ہوئے ہیں۔

4۔ سہولیات: سہولیات میں وہ دوسری تمام خدمات جو ہمیں ایک اچھی۔ آرام دہ اور پر سکون زندگی گزارنے کے لئے درکار ہوتی ہیں شامل ہیں۔ ان میں سفر کے دوران میں کھانا پینا، صاف پانی، پبلک ٹوائلٹ، صاف ستھرے اور معیاری ریسٹورنٹ، ٹیلیفون اور انٹرنیٹ کی معیاری سہولیات اور ایمرجنسی میڈیکل سروس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لئے آسان ویزا اور امیگریشن قوانین اور مکمل تحفظ اور سیکورٹی بھی بہت ہی اہم ہیں۔

5۔ سرگرمیاں: ان سرگرمیوں میں کھیلوں کے مقابلے جن میں کرکٹ اور فٹ بال کے ورلڈ کپ، اولمپک کھیلیں، بڑے بڑے میوزم کے ٹور، بوٹنگ، رافٹنگ اور اس طرح کی دوسری سرگرمیاں شامل ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک سیاحت سے اربوں ڈالر کما کر اپنے ملکوں کی معیشت کو بہتر بنا رہے ہیں۔

2018 میں سیاحت کے بارے میں کی گئی ایک سٹڈی کے مطابق اس پورے سال میں پوری دنیا میں ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں نے سیاحت کی جس سے دنیا کے ممالک کو 1451 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ گو کہ کرونا کی موجودہ صورت حال نے سیاحت پر بہت ہی منفی اثر ڈالا ہے اور اس صنعت سے جڑی ہوئی بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہونے کو ہیں۔ امید واثق ہے کہ اس صورت حال کے کنٹرول کے بعد دوبارہ اس صنعت کو عروج حاصل ہو گا۔ یونائیٹڈ نیشن ورلڈ ٹورزم آرگنائزیشن کی ایک پبلیکیشن کے مطابق اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مندرجہ ذیل دس ممالک میں سیاحوں نے جانا پسند کیا اور 2018ء میں سب سے زیادہ ان ملکوں میں سیاح آئے۔

سیاحت سے آمدن

سیاحوں کی تعداد

ملک کا نام

67.3 ارب ڈالر آٹھ کروڑ چورانوے لاکھ فرانس
73.0 ارب ڈالر آٹھ کروڑ اٹھائیس لاکھ

سپین

70.0 ارب ڈالر

سات کروڑ چھیانوے لاکھ

امریکہ

40.0 ارب ڈالر چھے کروڑ انتیس لاکھ

چین

49.0 ارب ڈالر چھے کروڑ اکیس لاکھ

اٹلی

25.2 ارب ڈالر

چار کروڑ اٹھاون لاکھ

ترکی

22.0 ارب ڈالر

چار کروڑ چودہ لاکھ

میکسیکو

42.0 ارب ڈالر تین کروڑ نواسی لاکھ

جرمنی

63.0 ارب ڈالر تین کروڑ تراسی لاکھ تھائی لینڈ
51.9 ارب ڈالر تین کروڑ تریسٹھ لاکھ برطانیہ

17.4 ارب ڈالر

دو کروڑ اٹھاسی لاکھ انڈیا

اسی طرح اگر شہروں کا جائزہ لیں جن میں اس سال سب سے زیادہ سیاح سیاحت کے لئے آئے تو دنیا میں پہلے دس شہروں کی فہرست میں انہی ممالک کے شہروں کے نام آتے ہیں, بنکاک، لندن، پیرس، دبئی، استنبول، دہلی، انتالیہ، روم اور نیویارک وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ان شہروں میں اتنا اچھا نظام موجود ہے جن میں ہوٹل، ٹرانسپورٹ، خوراک اور دوسرے ضروری لوازمات موجود ہیں۔ راقم نے ان میں سے بہت سی جگہوں کی سیر کے دوران میں ان کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔

اگر ہم اوپر بیان کی گئی پانچ بنیادی باتوں کا جائزہ لیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ مندرجہ بالا شہروں اور ان کے ملکوں میں یہ ساری سہولیات موجودہیں۔ ان ملکوں نے اپنے تاریخی ورثے اور قدرتی خوبصورتی پر بڑی توجہ دے کر ان کو کافی حد تک اپنی اصلی شکل میں سنبھال کو رکھا ہوا ہے۔ راقم نے پچھلے چند سالوں میں بیجنگ، ماسکو، لندن، پیرس، سینٹ پیٹرز برگ، بنکاک، پھوکٹ، بارسلونہ، کوالالمپور، کولمبو، استنبول اور انتالیہ کی سیر کے دوران میں ان شہروں میں سیاحوں کو مہیا کردہ سہولتوں کو بڑی قریب اور گہرائی سے دیکھا ہے۔

ان شہروں میں جو سہولیات سیاحوں کو میسر ہیں ہمارے یہاں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ سیاحت کے لئے پہلے بڑے سو ممالک میں پاکستان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر تاریخی ورثے سے مالا مال ہے اور شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کی نیلم ویلی کے قدرتی حسن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ ہمیں اپنے یہاں سیاحت کے فروغ کے لئے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).