کورونا ڈاکٹر ڈائری: کووڈ 19 کی وبا کے دوران ٹیکنالوجی کی مدد سے محفوظ عبادت


Man walking through sanitiser in mosque

ایک شخص مسجد میں لگائے گئے سینیٹائزر سے گذر رہا ہے

برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ کی ایک مسجد میں عبادت کے دوران کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔شہر کی رائل انفرمری کے ڈاکٹر جان رائٹ نے بریڈ فورڈ کی مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے انتظامات دیکھے ہیں۔ انھوں نے اس بات کا بھی جائزہ لیا کہ کورونا کی عالمی وبا کے دوران عبادت گاہیں کیسے خود کو حالات کے مطابق ڈھال رہی ہیں۔

انھوں نے امریکہ میں جاری ایک ایسے ٹرائل کے بارےمیں بھی معلومات حاصل کی ہیں جہاں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کووڈ کے مریضوں کے لیے دوا کے ساتھ دعا بھی جا رہی ہے۔ اس ٹرائل میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا مریض کو عبادت سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ پڑھیے ڈاکٹر رائٹ کی ڈائری

’یہ حقیقت ہمارے معاشرے کی حیران کن عکاسی کرتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد نارمل حالات کی طرف جانے کا راستہ شراب خانوں، دوکانوں اور ریسٹورنٹس سے گزرتا ہے۔

جب لاک ڈاؤن ختم کیا گیا تو حکومت کی ساری توجہ اس پر مرکوز تھیں کہ لوگ واپس مارکیٹوں، شراب خانوں اور ریسٹورانٹس میں جائیں تاکہ کاروبارِ زندگی پہلے کی طرح بحال ہو۔ یہ حقیقت دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہم معاشی صحت کو روحانی صحت پر ترجیح حاصل ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران مساجد، گرجا گھروں اور مندروں کو بند کرنے کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگیوں میں خلا پیدا ہوا۔ عبادت گاہوں کے دوبارہ کھلنے سے ایسے لوگوں کا مذہبی اور معاشرتی تعلق پھر سے بحال ہوا۔ عمررسیدہ لوگوں کے لیے اس مذہبی اور معاشرتی تعلق کی اہمیت دوسرں سے کہیں زیادہ ہے۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کورونا کی وبا کے پھیلاؤ میں مذہبی اجتماعات نے اہم کردار ادا کیا۔ شادی کی تقریبات ہوں یا جنازے یا پھر کوائرز سب کا وبا کے پھیلاؤ میں ایک کردار ہے۔ لاک ڈاؤن کے اٹھائے جانے کے بعد امریکہ اور جنوبی کوریا میں گرجا گھر کورونا کے پھیلاؤ کے مراکز میں سے ہیں۔ عبادت گاہوں کو پھر سے کھولنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے چانسلر کی طرف سے کسی مدد کی پیشکش بھی نہیں ہے۔

میں نے اپنے دوست زلفی کریم کے ہمراہ، جو مساجد کونسل کے صدر بھی ہیں، بریڈفورڈ کی ایک مسجد کا دورہ کیا۔ زلفی خود بھی کورونا کی وبا سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ وبا پہلے کے ابتدائی ایام میں ہی وائرس نے انھیں جکڑ لیا اور انھیں اس مرض کے اثرات سے نکلنے میں چھ ماہ لگے ہیں۔

بریڈ فورڈ کی مرکز السلام مسجد مقامی مسلمان آبادی کا روحانی گھر ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دوسری مساجد کی طرح یہ مسجد بھی بند رہی۔ اب جب لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے، تو امام نے نمازیوں کی حفاظت کے لیے دو مقامی ڈاکٹروں، طاہر شاہین اور شیراز علی کی مدد سے اس مسجد کو کورونا سے پاک مسجد بنانے کی کوشش کی ہے۔

Zulfi Karim gets sprayed with sanitiser

زلفی کریم سینٹائزر سپرے سٹیشن سے گذر رہے ہیں

انھوں نے مجھے دکھایا کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسجد کو کیسے کورونا فری بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے اس مسجد میں آنے والے نمازیوں کے جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے اور ماسک پہننے کی یقینی بنایا جاتا ہے۔ یہاں نمازیوں کو ایئرپورٹ طرز پر جراثیم کش دھند میں سے گزارا جاتا ہے۔ مسجد کی وینٹیلشن کا نظام ایسے تیار کیا گیا ہے کہ ہوا بھی جراثیم سے پاک ہو۔

زلفی کریم نے مجھے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں لوگ گھروں میں عبادت کر رہے تھے لیکن اسلام میں کچھ عبادات ایسی ہیں جو صرف اجتماعات میں ہی کی جاسکتی ہیں جیسے نماز جمعہ کی ادائیگی۔ اب مسجد میں نمازیوں کی ایک محدود تعداد کو ہی آنے کی اجازت ہے۔ زلفی نے مجھے بتایا کہ مسجد کی گنجائش کا صرف 10 سے 15 فیصد استعمال ہو رہا ہے۔ لوگ مسجد میں آنا چاہتے ہیں لیکن صرف اتنی تعداد کو ہی آنے دیا جاتا ہے جو تمام حفاظتی تدابیر کے ساتھ عبادت کر سکتے ہیں۔

امام مسجد محمد اشتیاق نے مجھے بتایا کہ جولائی سے مسجد میں عبادت کے لیے آن لائن بکنگ کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ جب لوگ دروازے سے اندر آتے ہیں تو ایک خودکار نظام کے تحت ان کے جسم کا درجہ حرارت معلوم کیا جاتا ہے اور اگر کسی کو بخار ہو تو اسے قرنطینہ کمرے میں لے جا کر پھر سے چیک کیا جاتا ہے۔

جن کے جسم کا درجہ حرارت نارمل ہو انھیں سینیٹائزنگ سٹیشن تک لےجاتا ہے جہاں سے وہ عبادت والے ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ اس ہال کے فرش پر ایک میٹر کے فاصلے پر لائنیں لگی ہیں۔ یہ تمام آلات مسجد کو پی فور ٹیکنالوجی فرم نے مفت فراہم کیے ہیں۔ مسجد ان آلات کا ایک سال تک ٹرائل کرے گی۔

امام مسجد کہتے ہیں کہ اگر ٹیکنالوجی نے ہمیں اجازت دی اور ہمیں اس کی منظوری ملی تو ہمیں امید ہے کہ ہمیں دوران عبادت ماسک اتارنے کی اجازت مل جائےگی اور پھر ہم ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہو کر عبادت کر سکیں گے۔

ڈاکٹر شہزاد کہتے ہیں کہ اگر ہمیں اس سے فائدہ پہنچتا ہے تو ہم چاہیں گے کہ تمام مذاہب اور گروہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔


فرنٹ لائن ڈائری

Dr John Wright

Ian Beesley
ڈاکٹر جان رائٹ وہائی امراض کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ وہ بی بی سی نیوزکے لیے ایک ڈائری تحریر کر رہے ہیں

بریڈفورڈ انسٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ ریسرچ کے سربراہ پروفیسر جان رائٹ وبائی امراض کے ماہر ہیں۔ وہ ہیضہ ، ایچ آئی وی اور ایبولا جیسی وبائی امراض کا علاج کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پروفیسر جان رائٹ بی بی سی نیوز کے لیے ڈائری لکھ رہے ہیں اور بی بی سی ریڈیو کے لیے اسے اپنے ہسپتال کے وارڈوں سے ریکارڈ کروا رہے ہیں۔


بریڈ فورڈ کی لیڈز روڈ پر واقع سکھوں کے گردوارے میں رضاکار اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ تمام عبادت گزاروں نے فیس ماسک پہن رکھے ہیں۔ وہاں لوگوں کو دو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنے کا ترغیب دی جاتی ہے۔

گردوارے میں تمام صداکار شیشے کی سکرینوں کے پیچھے ہیں۔

اسی ماہ کے اوئل میں گردوارے میں آنے ایک شخص میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو پھر اس دن گردوارے میں آنےوالے تمام افراد کو 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رہنا پڑا۔

بریڈفورڈ کے بشپ ٹوبی نے مجھے بتایا کہ ان کے کیتھیڈرل میں اب ہولی کمیونین بہت مختلف انداز میں ہوتی ہے۔ یہاں صرف پادری ہی وائن کو حاصل کر سکتا ہے اور پھر وہ بغلی راستوں میں جا کر ہر آدمی کے ہاتھ بریڈ تھماتا ہے۔ وہ ایسا کرنے کے بعد ہر بار ہاتھ کو جراثیم سے پاک کرتا ہے۔ کئی گرجا گھروں میں آن لائن سروس ہو رہی ہیں یا عبادت گزار ریکارڈ کیے گئے وعظ سننے کے بعد کیمونین کے لیے چرچ جا سکتے ہیں۔

بشپ ٹوبی نے مجھے بتایا کہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں ہر ہفتے لٹرجی لوگوں کے گھروں تک پہنچائی جا رہی ہے اور تمام لوگ یہ جانتے ہوئے کہ دوسرے عبادت گزار بھی یہ ہی لٹرجی پڑھ رہے ہوں، وہ بھی عبادت کرتے ہیں،

امریکی ریاست کنساس میں ایک خوبصورت مثال سامنے آئی ہے جہاں مذہب اور سائنس مل کر کووڈ 19 کی وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کنساس میں ڈاکٹر اور مذہبی رہنما انتہائی نگہداشت والے یونٹ میں داخل مریضوں کے لیے عبادت کا ٹرائل کر رہے ہیں۔ اس ٹرائل میں یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا مذہب انسان کو بیماری سے مقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

یہ کوئی مکی ماؤس ٹرائل نہیں ہے۔ ایک ہزار مریضوں پر ٹرائل سے بہتر کوئی سائنٹیفک ٹرائل نہیں۔ مجھے شبہ ہے کہ صبح وارڈ کے دورے کے دوران اگر ڈاکٹر مریض کے پاس پہنچ کر سجدے میں گر کر مریض کی صحت یابی کے لیے دعا مانگنے لگے تو مریض کو یقیناً اس سے حوصلہ نہیں ملے گا۔ اس ٹرائل میں عبادت دور سے کی جاتی ہے۔ یہاں عیسائی، ہندو، مسلمان ، یہودی اور بودھ مریضوں کے لیے عبادت کی جاتی ہے لیکن اس دوران مریضوں کو بلاناغہ دوا دی جاتی ہے۔

جب ہم ہر وقت بہتر سے بہتر علاج کی جستجو میں رہتے ہیں، تو یہ معلوم کرنے میں کیا حرج ہے کہ کیا عبادت بھی ڈیکسامیتھاسون کی طرح کارگر ثابت ہوتی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp