اگر تہوار نہیں منایا تو دیوتا ناراض ہو جائیں گے


نیپال کی کماری دیوی

NurPhoto
نیپال کی کماری دیوی

دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح نیپال بھی کورونا وبا کی گرفت میں ہے۔

انفیکشن کے خطرے کے پیش نظر یہاں بھی حکومت نے مارچ کے بعد سے لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت نے متعدد پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان اب نیپال میں ایک نیا چیلنج ابھرتا نظر آتا ہے اور یہ چیلنج ملک کے مذہبی رہنماؤں اور پجاریوں کی جانب سے ہے ۔

اس وقت نیپال کے تمام مندر پابندیوں کے تحت بند ہیں اور زیادہ لوگوں کے لیے ایک جگہ جمع ہونا ممنوع ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اکتوبر سے نومبر یعنی دسہرہ اور دیوالی تک ان پابندیوں کے خاتمے کا امکان کم ہے۔

ہندو اور بدھ مت کی ثقافتوں کے امتزاج والے ملک نیپال میں کورونا وبا کے بعد سے کوئی بڑا تہوار نہیں منایا گیا ہے۔

دارالحکومت کھٹمنڈو میں دیوتاؤں کے احترام میں کی جانے والی رتھ یاترا جیسی رسومات کو یا تو منسوخ کر دیا گیا یا بہت ہی کم سطح پر محدود رکھا گیا۔

कपिल बज्राचार्य

BIKRAM BAJRACHARYA
اگر بھگوان ناراض ہوتا ہے تو ہم کورونا وائرس سے کہیں زیادہ بڑی پریشانیوں میں پھنس جائیں گے: کپل بجراچاریہ

‘یہ ایک گناہ ہے’

گذشتہ ماہ کھٹمنڈو کے جنوبی حصے میں ایک جھڑپ ہوئی تھی جب مشتعل مظاہرین نے ایک مذہبی جلسے ‘اندرا یاترا’ کے لیے لاک ڈاؤن کے سرکاری قواعد کی خلاف ورزی کی تھی۔

تصادم کے بعد عقیدت مندوں نے پولیس کی موجودگی میں کم ہجوم کے ساتھ یہ یاترا نکالی بارش کے ہندو دیوتا، اندرا کے اعزاز میں اندرا یاترا نکالی جاتی ہے۔

کھیتی یعنی کاشتکاری کے دیوتا کے اعزاز میں مچندر ناتھ یاترا کی قیادت کرنے والے ہیڈ پجاری کپل بجراچاریہ کا کہنا ہے کہ جس طرح سے حکومت مذہبی تہواروں پر پابندی عائد کر رہی ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

انہوں نے کہا ‘میرا خاندان صدیوں سے یہ یاترا نکال رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہے کہ میرے دور میں مجھے یاترا نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سے پہلے کبھی اسے منسوخ نہیں کیا گیا تھا’۔

72 سالہ بجراچاریہ کہتے ہیں ‘مجھے یقین ہے کہ نیپال دیوی اور دیوتاؤں کا مقدس مقام ہے۔ اگر بھگوان ناراض ہوتا ہے تو ہم کورونا وائرس سے کہیں زیادہ بڑی پریشانیوں میں پھنس جائیں گے۔ جس طرح نیپال حکومت مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کررہا ہے۔ مجھے اس پر سخت اعتراض ہے۔ جہاں تک مجھے لگتا ہےیہ ایک گناہ ہے’۔

پجاری

SOPA Images
’اگر ہم زندہ رہیں گے تو تہوار منائیں گے‘

پاٹن کے رہائشی 38 سالہ تاجر بابوراجا گیاپا کا بھی خیال ہے کہ نیپال حکومت کے فیصلوں سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ‘مجھے مذہب پر مکمل اعتماد ہے اور مجھے لگتا ہے کہ مذہبی رسومات میں شامل نہ ہونا برا ہو سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ عمر رسیدہ افراد زیارت پر جانے کے لیے زیادہ خواہشمند ہیں۔ اگر حکومت ان پابندیوں کو جاری رکھے تو لوگوں کو ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا’۔

تاہم کچھ برادریوں اور مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس سال کو ایک استثنیٰ سمجھا جاسکتا ہے اور حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے بعد تہوار منایا جا سکتا ہے۔

کٹھمنڈو کی دیوی کماری کی دیکھ بھال کرنے والے گوتم شکیہ دیوی کے روایتی محل کے قریب ایک خاص مندر میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مندر میں سکیورٹی کے تمام انتظامات ہیں اور اس اس بات کی امید کم ہی ہے کہ اس سال بڑے پیمانے پر کوئی تہوار ہوگا۔

شکیہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘ہم نے ابھی تک نو راتری تہوار کے آٹھویں دن کماری دیوی کے تلیجو مندر میں قیام کے بارے میں حکومت سے بات نہیں کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھیڑ نہیں ہوگی لیکن ہم کماری دیوی کو مندر لے جا کر کسی بھی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے’۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر ہم پوری روایات کے ساتھ رسوم ادا نہیں کرتے تو یہ بری بات ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمیں پریکٹیکل ہونا چاہئے۔ اگر ہم زندہ رہے تو ہی آئندہ نسلوں کے ہمارے رسم و رواج بچا پائیں گے’۔

ان کا کہنا ہے ‘لاک ڈاؤن کے بعد سے ہم نے کسی کو کماری دیوی سے ملنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ہم روزانہ ان کی رہائش گاہ کے اندر پوجا کرتے ہیں۔

ستیا موہن جوشی

Keshav Koirala/BBC
لوگوں کو سائنس پر اعتماد کرنا چاہیے۔: ستیا موہن جوشی

‘سائنس پر اعتماد، روایات پر نہیں’

نیپال میں ایک کمسن بچی کو دیوی کماری کا درجہ دیا جاتا ہے اور کماری کو ہندو دیوی درگا کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ہندو اور بودھ دونوں کماری کی پوجا کرتے ہیں۔

نیپال کے مشہور مصنف اور سکالر ستیہ موہن جوشی کہتے ہیں کہ لوگوں کو تہواروں اور رسم و رواج کے بارے میں بات کرنے کی بجائے سائنس پر اعتماد کرنا چاہیے۔

نیپالی ثقافت کے ماہر جوشی کہتے ہیں ‘ماضی میں وبائی بیماریوں کو دیوتاؤں کا عذاب سمجھا جاتا تھا۔ کسی بھی تباہی کے دوران لوگ گلیوں میں جمع ہو کر دیوتاؤں کو نذرانہ پیش کرتے اور ان سے معافی مانگتے تھے۔ لیکن اب یہ سب رواج پرانے ہو چکے ہیں’۔

101 سالہ ستیہ موہن جوشی کہتے ہیں ‘ہم نیپال میں مذہبی تہواروں اور تہواروں کے جشن منانے میں کورونا وائرس کے انفیکشن میں اضافہ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ ہماری معیشت اور طبی سہولیات کو تباہ کردے گا۔ ہمیں ماہرین صحت کی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔

’مذہب اور حکومت سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو سکتا ہے’

نیپالی وزارت داخلہ کے ترجمان چک بہادر بدھ نے مذہبی سرگرمیوں پر پابندی کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا ہے۔

انہوں نے کہا ‘ہم نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ جسمانی فاصلے پر عمل کریں اور خود ہی نظم و ضبط رکھیں۔’

ہری شنکر پرجاپتی ، جو کھٹمنڈو میں اپنی دکان چلاتے ہیں وہ بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ‘کسی بھی قسم کی بھیڑ یا ہجوم سے انفیکشن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ میرے لیے صحت سب سے پہلے ہے۔ اگر ہماری صحت بہتر نہیں ہے تو ہم اس تہوار کو منانے کے قابل نہیں ہوں گے’

لیکن پدما شریشٹھ حکومت سے ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘حکومت نے خوف پیدا کیا ہے اور لوگ ناراض ہیں۔ کئی صدیوں سے جاری مذہبی تہواروں کو روکنے سے لوگ حکومت اور مذہب دونوں پر اعتماد کھو سکتے ہیں’۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp