آزاد قیدی


قلم اٹھانے سے پہلے دل میں خیال آیا کہ خاموشی ہی بہتر ہیں، پھر سوچ لیا کہ کب تک یہ خاموشی؟ ایسا نہ ہو کہ یہ خاموشی مجھے اپنے اندر ہی سے مار ڈالے۔ میرے ذہن میں ہزاروں ایسے سوالات اور خیالات جو کہ قابل سوچ طلب ہیں، مگر معاشرے کی جذباتی فطرت کے سامنے ایک بے بس بندہ کیا کر سکتا ہے؟

مجھ سے سوال کرنے کا حق اور کسی چیز پر سوال اٹھانے کا حق چھین لیا گیا۔ میری سوچ پہ پاپندی لگائی گئی۔ مجھے حقائق سے دور رکھا گیا۔

میں حقیقت جانتا ہوں۔ حقیقت مجھ سے چھپا نہیں لیکن مجھے حقیقت سے چھپایا گیا ہے۔ ہر کسی نے مجھے اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا اور کر رہے ہیں، لیکن میں پھر بھی کچھ بول نہیں سکتا، میں نہیں جانتا کہ یہ میری مجبوری ہے یا میری بزدلی۔ میں باطل کو جانتے ہوئے بھی باطل کا مقابلہ نہیں کر سکتا، مقابلہ تو دور کی بات، باطل اور غلط کے خلاف بولنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔

زندگی میں بسر کر رہا ہوں، میری زندگی کے اصول اور لوگ بناتے ہیں، میرے ماضی کے بارے میں اور لوگ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ میرے حال اور مستقبل کے فیصلے اور لوگ کرتے ہیں۔ میں خود کو صحیح کہہ سکتا ہوں اور نہ ہی غلط۔ ہمارے صحیح یا غلط ہونے کے فیصلے اور کرتے ہیں۔

میری زندگی کے لئے اصول پہلے سے مقرر کیے گئے۔ زندگی کی اصولوں کے بارے میں نہ مجھ سے پوچھا اور نہ ہی پوچھنا ضروری سمجھا۔ حالانکہ زندگی تو میری تھی۔ مجھ کو دنیا ہمیشہ ایک ہی کونے سے دیکھایا گیا، مزید اطراف سے مجھے دنیا دیکھنے کی اجازت نہیں ملی۔ میری بنیاد دو چیزوں پر رکھ دی گئی۔ خوف اور لالچ، مجھے لالچ دے کر ڈرایا دھمکایا تو صرف اور صرف میری مستقبل کے لیے، کسی نے میری حال کے بارے میں نہیں پوچھا، حالانکہ بہتری تو حال میں ہونی چاہیے۔

مجھے منزل تک پہچنے کے لئے ایک ہی راستہ دیکھایا، ورنہ راستے تو اور بھی تھے۔ مجھے ہمیشہ سے نفرت سکھایا گیا، اور محبت اپنانے سے دور رکھا گیا۔ مجھ کو ذہنی قیدی رکھا گیا، جہاں پر سوچنے کی ضرورت تھی وہاں پہ میری سوچ پر پابندی لگائی گئی۔

کیا میں انسان اور اشرف المخلوقات نہیں؟ کیا میں اپنی سوچ نہیں رکھتا؟ ہماری دنیا ایک ہیں۔ ہم سب کی بناوٹ ایک جیسا ہیں، ہم سب میں مشترکہ اقدار انسانیت ہیں۔ پھر ہم مختلف گروہوں میں تقسیم ہی کیوں؟

مجھ کو تمھیں برا بھلا کہنے کا اختیار کس نے دیا؟ تمھارے پاس میری برائی کا اختیار کسے آیا؟
میں نے دنیا کے ہر انسان سے محبت کی ہے اور کرتا رہوں گا، اس سے آپ کو کیا تکلیف و پریشانی؟
میں غدار کیوں؟ میں گہنگار کیوں؟
آپ ایماندار کیسے؟ آپ پرہیز گار کیسے؟

یہ گناہ، ثواب، ایمانداری اور غداری کا پیمانہ کس کے پاس ہیں اور کس ناپ تول سے چیزوں کو روکتا ہے۔ آپ کے پاس تو صحیح و غلط کا مہر ہے، جس پہ چاہا صحیح کا مہر لگایا اور جس پہ چاہا غلط کی مہر لگا دی، یہ مہر لگانے کا اختیار آپ کو کس نے دیا؟

ہم نے تو جی کر جینا سیکھا ہیں۔
آپ نے تو ہمیں مر مر کر جینے کا سلیقہ دیا۔

ہم تو آزاد آئے ہیں، آپ کو ہمیں غلام بنانے کا اختیار کس نے دیا، ہم نے تو تہذیب رفتار وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ لیا، آپ نے تو ہمیں تہذیب کا بالکل عکس ہی نہیں دیا۔ ہم نے تو خوشی کی زندگی گزارنی پسند کی اور لوگوں کو بھی خوش رہنے کی ترغیب دی۔ یہ نفرتیں تو آپ کی پیدا کردہ مواد ہیں۔

ہم نے تو انسان اور انسانیت سے محبت کی، رنگ ونسل سے نہیں۔ یہ تو آپ نے ہمیں تقسیم کیا، ہم نے تو دوسرے کو اپنے برابر سمجھا اور دوسرے کے لئے وہ پسند کیا جو اپنے لئے کرتے ہیں، یہ اونچ نیچ اور تفریق تو آپ نے پیدا کر دی۔ قانون اور اصول تو سب کے لئے برابر ہے، پھر یہاں دوہرا معیار کیوں؟

ہمیں دنیا کے دولت، شہرت، حسن اور قابلیت سے زیادہ عزیز ہیں اپنا نظریہ اور اصول۔ اس پر سوال اٹھانے کا حق آپ کو کیسے ملا؟

میں نے تو دریا سے ایک قطرہ اٹھانے کی کوشش کی، اس پہ صاحب برا مان گئے، تو میں کیا کروں؟
میں نہیں جانتا، میں نہیں جانتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).