کورونا وائرس: کیا انڈیا میں ایجاد کیا گیا کورونا وائرس کی تشخیص کا نیا ٹیسٹ دنیا کے لیے ‘گیم چینجر’ ثابت ہو سکتا ہے؟
انڈیا میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے کورونا وائرس کی جلد از جلد تشخیص کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو تقریباً ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کسی شخص کے وائرس میں مبتلا ہونے یا نہ ہونے کے نتائج فراہم کر سکتا ہے، اس ٹیسٹ کی قیمت پانچ سو انڈین روپے ہو گی۔
انڈیا کے ایک معروف افسانوی کردار ’فیلودا‘ کے نام سے منسوب اس ٹیسٹ میں جینیاتی تدوین کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کا نام ’کرسپر‘ ہے۔ فیلودا ایک جاسوس افسانوی کردار ہے۔
فیلودا ٹیسٹ انڈیا کی معروف کاروباری کمپنی ٹاٹا تیار کرے گی اور اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے پہلا کورونا وائرس ٹیسٹ ہو گا جو کہ کاغذ کی مدد سے تیار ہو سکے گا۔
انڈین حکومت کے مشیر برائے سائنس پروفیسر وجے راگھاون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نہایت سادہ، قابلِ بھروسہ اور سستا ٹیسٹ ہے جو بروقت بہترین نتائج دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس: جب انڈیا کا دارالحکومت دہلی سنسان ہو گیا
انڈیا میں کورونا وائرس سے اموات زیادہ کیوں ہو رہی ہیں؟
انڈیا: کورونا وائرس کی وبا پر قابو کیوں نہیں پا سکا؟
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں قائم انسٹیٹیوٹ آف جینومکس اینڈ انٹیگریٹوو بائیولوجی (آئی جی آئی بی) میں محققین نے اس ٹیسٹ کو تیار کیا ہے اور اس کو دو ہزار ایسے مریضوں پر آزمایا گیا ہے جو کورونا وائرس کا شکار تھے۔
اس آزمائش سے پتہ چلا کہ فیلودا ٹیسٹ میں 96 فیصد تک حساسیت ہے اور 98 فیصد تک وہ تعین کر سکتا ہے کہ مریض کو مرض ہے یا نہیں۔
کسی بھی ٹیسٹ کی درستگی کو جانچنے کے لیے یہ دونوں معیار استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ ٹیسٹ جو بہت حساس ہوتے ہیں وہ تقریباً ہر اس فرد کی تشخیص کر سکتا ہے جسے وائرس لاحق ہو یعنی ان کا نتیجہ سو فیصد درست ہوتا ہے۔
اور وہ ٹیسٹ جس میں تعین کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو وہ درست طریقے سے ان افراد کی شناخت کر سکتا ہے جن کو مرض نہ ہو۔
ان دونوں طریقوں سے فالس پازیٹیو یا فالس نیگیٹو یعنی کسی فرد کو غلط طور پر مثبت قرار دینا یا غلط طور پر منفی قرار دینے (یعنی غلط تشخیص) کے عمل میں کمی کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ 60 لاکھ مریضوں کے ساتھ انڈیا دنیا میں کورونا وائرس سے دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور اب تک یہاں ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
انڈیا میں فی الحال تقریباً دس لاکھ ٹیسٹ یومیہ کیے جا رہے ہیں۔ مریضوں میں کورونا کی تشخیص کے لیے دو طرح کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
پہلا وہ ہے جو دنیا بھر میں سب سے معروف اور سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والا یعنی پی سی آر ٹیسٹ ہے جس میں مریض کا سواب ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور لیبارٹری میں جانچ ہوتی ہے کہ اس شخص میں وائرس ہے یا نہیں۔
دوسرا طریقہ اینٹیجن ٹیسٹ ہے جس میں مریض کے سیمپل سے وائرس کے حصے شناخت کیے جاتے ہیں۔
پی سی آر ٹیسٹ کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے اور انڈیا میں اس ٹیسٹ کی قیمت لگ بھگ 2400 انڈین روپے ہے۔ پی سی آر ٹیسٹ میں غلط تشخیص کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ پی سی آر کے مقابلے میں اینٹیجن ٹیسٹ کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن وہ پی سی آر کے مقابلے میں فالس نیگیٹو نتائج زیادہ دیتے ہیں۔
انڈیا میں ٹیسٹنگ کی تعداد بڑھانا ایک چیلینج رہا ہے اور صحت عامہ اور پبلک ہیلتھ کے بارے میں تحقیق کرنے والے ڈاکٹر آننت بھان کہتے ہیں کہ ابھی بھی ٹیسٹس کرانے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس میں بھی اکثر نتائج میں غلطیاں سامنے آتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ فیلودا ٹیسٹ اینٹیجن ٹیسٹ کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بہتر ہے اور اس سے زیادہ سستا بھی۔
آئی جی آئی بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوراگ اگروال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نئے ٹیسٹ میں پی سی آر کی طرح درست تشخیص کی صلاحیت ہے اور وہ چھوٹی لیبز میں بھی ہو سکتا ہے۔‘
فیلودا ٹیسٹ کے لیے سیمپل لینے کا طریقہ پی سی آر ٹیسٹ سے ملتا جلتا ہے جس میں ناک کے ذریعے سواب لیا جاتا ہے۔
انڈیا میں ابھی تک سرکاری طور پر لعاب کے سیمپل لینے پر پابندی ہے۔
پی سی آر ٹیسٹ میں سیمپل کو کسی بھی مخصوص لیب میں بھیجا جاتا ہے جس کے بعد مختلف مراحل سے گزر کر پھر وائرس کی شناخت ہوتی ہے۔
فیلودا ٹیسٹ میں جینیاتی تدوین کی ٹیکنالوجی کی مدد سے وائرس کی شناخت کی جاتی ہے۔
محققین بتاتے ہیں کہ یہ طریقہ کار اتنا حساس اور درست ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک خلیہ کو جانچ سکتا ہے۔ فیلودا ٹیسٹ میں کرسپر ٹیکنالوجی جینیاتی خلیوں کے ان حصوں کو پکڑتا ہے جن پر شبہ ہوتا ہے کہ ان میں کورونا وائرس ہے، اور مل جانے کی صورت میں کاغذ پر اس کی نتیجہ اخذ کر دیتا ہے۔
اس ٹیسٹ میں نیلے رنگ کی دو لکیریں ظاہر کرتی ہیں کہ نتیجہ مثبت آیا ہے جبکہ ایک لکیر کا مطلب نتیجہ منفی آنا ہوتا ہے۔
امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک محقق ڈاکٹر سٹیوفن کسلر کہتے ہیں کہ ٹیسٹنگ کی تعداد میں اضافہ کرنا نہایت ضروری ہے اور فیلودا ٹیسٹ اس سلسلے میں بہت مدد کر سکتا ہے۔
اسی ادارے کے ایک اور ڈاکٹر تھامس کہتے ہیں کہ کرسپر ٹیکنالوجی پر مبنی یہ تیسری قسم کے ٹیسٹ ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں بھی کئی کمپنیاں اس نوعیت کی ٹیسٹس تیار کرنے میں مصروف ہیں جو سستے ہوں، بڑے پیمانے پر تیار کیے جا سکیں اور درست نتائج دے سکیں۔
مزید پڑھیے
جنوبی ایشیائی ممالک میں کورونا وائرس کے متاثرین باقی دنیا سے کم کیوں؟
کورونا وائرس: سواب ٹیسٹ کے بارے میں بے بنیاد دعوؤں کی حقیقت
ڈاکٹر تھامس کہتے ہیں کہ سب سے عمدہ اور بھروسہ مند ٹیسٹ وہ ہو گا جو آپ گھر بیٹھ کر کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا مکمل طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ ہم لوگوں سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ گھر کے ٹیسٹ میں اتنا دشوار کام کریں جس کے لیے بڑی مشینری چاہیے ہوتی ہے۔
اور یہیں پر فیلودا ٹیسٹ کی افادیت سامنے آتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ جینیاتی تدوین کی شناخت کے لیے کیے گئے ٹیسٹوں میں بڑا اہم کردار ادا کرے۔
ہاورڈ کے ڈاکٹر کسلر کہتے ہیں کہ انڈیا کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اس ٹیسٹ کے فائدے سے سب کو روشناس کرائے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پوری دنیا کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین اپنی جگہ بہت ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ قابل اعتماد ٹیسٹنگ بھی اتنی ہی اہم ہے تاکہ حالات دوبارہ معمول کی جانب آ سکیں۔
’میں ایک ایسا دنیا کا تصور کرنا چاہتا ہوں جہاں ٹیسٹ لینا اتنا ہی آسان ہو جتنا صبح اٹھ کر دانت برش کرنا۔‘
- ’یوکرین کے مقابلے میں غزہ میں زیادہ ملبہ ہے‘: خان یونس سے ان بموں کو ہٹانے کی دوڑ جو ابھی پھٹے ہی نہیں - 20/04/2024
- دولت کی عظیم منتقلی جو نوجوانوں کو ’کچھ کیے بغیر‘ ارب پتی بنا رہی ہے - 20/04/2024
- کینیڈا میں چار سو کلو خالص سونے اور لاکھوں ڈالر کی چوری کے کیس میں گرفتاریاں: ’منظم گروہ نے یہ سب نیٹ فلکس سیریز سٹائل میں کیا‘ - 20/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).