کیا ہم ماضی پرست ہوتے ہیں یا اذیت پسند؟


لوگ کہتے ہیں برا وقت جب بھی یاد آئے، رلاتا ہے۔ میری نرسری کی ٹیچر بہت سخت مزاج تھیں۔ نجانے وہ ایسی ہی تھیں یا ایک واقعے کی وجہ سے ان کا سلوک میرے ساتھ ایسا ہو گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ میری خالہ جو بہت عرصے سے ماموں کی شادی کے لیے لڑکی کی تلاش میں تھیں، ان کو میری ٹیچر پسند آ گئیں۔ ان سے گھر کا ایڈریس لے کر، وہ بڑی خالہ اور امی سمیت رشتہ دیکھنے پہنچ گئیں۔ بڑی خالہ کو ٹیچر کی بجائے، ان کی چھوٹی بہن پسند آ گئیں۔ اس وجہ سے اس گھر میں رشتہ کا ارادہ ہی کینسل ہو گیا۔ پر رشتہ نہ کرنے کے سبب ٹیچر کا رویہ مجھ سے بہت سخت ہو گیا۔ سوا دو سال کی عمر میں جو خوشی سے سکول جاتی تھی، اب روز رویا کرتی۔ میری کلاس سمیت پورے سکول کو میرے رونے کی خبر ہو جاتی۔

میری کلاس پہلی منزل پہ تھی۔ سکول پہنچتے میری آواز وہاں تک جاتی تھی اور کلاس فیلو کہا کرتے تھے، لگتا عائشہ سکول آ گئی ہے۔ ٹیچر کے رویہ کی وجہ سے سکول تو چھڑوا دیا گیا۔ پر وہ رونا اور کلاس کا مذاق سب کو اکثر یاد آ جاتا تھا۔ جو باتیں مجھے اس وقت معلوم بھی نہیں تھیں، وہ بھی وقت کے ساتھ یاد آ گئیں۔ وہ رونا مجھے آج بھی یاد ہے، پر اب جب بھی یاد آتا ہے، ہنسی آتی ہے۔ اس واقعے نے ایک بات سمجھا دی، وہ یہ کہ ساری عمر کے لیے کام کی جگہ ہو، یا پڑھنے کی رشتہ داریاں نہیں بنانا چاہیے۔ میں شعوری و لاشعوری طور پر ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہی ہوں۔

ہمیشہ ہم ماضی کو غم کی شکل ہی میں کیوں یاد کرتے ہیں؟ مشکل وقت جب گزر رہا ہو، تب اذیت کم نہیں ہوتی، پر وقت کی ایک خاصیت ہے، سہل ہو یا مشکل گزر ہی جاتا ہے۔ اسی طرح ایم بی اے کے بعد، ایک جاب میں، میری مینیجر پڑھی لکھی، خوبصورت، ماڈرن پر اخلاقی طور پہ خاصی کمزور خاتون تھیں۔ ان کی وجہ سے جاب نوٹس دیے بنا چھوڑ دی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی دفعہ تھا، جب کام کی جگہ پہ پڑھی لکھی خاتون سے گالیاں پڑی تھیں۔ ایک بار نہیں، متعدد دفعہ۔ یہی سوچ کر خاموش ہو رہتی کہ شاید غلطی میری ہو۔ پھر ایک دن برداشت جب ختم ہو گئی، تو میں نے بیگ اٹھایا اور آفس سے نکل آئی۔ کیوں کہ اس سے پہلے وہ چلاتے ہوئے، لوگ اکٹھے نہیں کرتی تھیں۔ اس دن انھوں نے سارا آفس اکٹھا کر لیا تھا۔ اب سوچوں تو دکھ کی بجائے ہنسی آتی ہے۔ ان کی یہ حرکت مجھے یہ سکھا گئی کہ کام کی کوئی بھی جگہ ہو، آپ کا باس کو اچھا ہونا چاہیے، نہیں تو آپ اچھی سے اچھی آرگنائزیشن کو چھوڑ دیں گے۔ اس پر خاصی ریسرچ موجود ہے کہ لوگ آرگنائزیشن نہیں، باس چھوڑ کر جاتے ہیں۔

زندگی ایسے ان گنت بیتے ہوئے واقعات سے بھری پڑی ہے، جو اتنے کٹھن لگتے تھے کہ کبھی تو سانس لینا دوبھر ہوتا تھا، پر وقت گزر جانے کے بعد سبق اور قہقہے دے جاتے ہیں (کم سے کم میرے لیے ایسا ہی ہے، ہاں لوگ غم سے نہیں نکل پاتے)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ واقعہ گزر جانے کے بعد بھی، لوگ اپنے زخموں کو تازہ رکھے ہوتے ہیں۔ ہر بات میں آہیں، ہر بات میں غم۔ ہم حال میں کم اور ماضی میں زیادہ جیتے ہیں۔ جو نہیں ملا اس کا غم نہیں جاتا اور جو ہے، اس پہ شکوہ کناں۔

ادھورے راستے ہی کامیابی کا راز ہوتے ہیں۔ اگر وہ سب ادھورے کام (چاہیے وہ کسی انسان کے ساتھ کی خواہش ہو یا کسی شے کے مل جانے کی)، جن کے مکمل ہو جانے کی خواہش رہی ہو، وہ اگر ہو جاتے تو آج ہم وہاں نہ ہوتے جہاں ہم آج ہیں۔ اگر وہ سب مل جاتا تو ہم آپ کہاں ہوتے؟ جہاں کہیں بھی ہوتے، پر جہاں آج ہیں، وہاں نہ ہوتے۔ ایک لمحے کو سوچیے جو اب ہے، وہ سب نہ رہے، تو کیا کریں گے؟ کیا یہ سب چھوڑ کر، وہ سب چاہیے، جس کا جوگ لیے بیٹھے ہیں؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ ہم اس بندر کی مثال ہیں، جس نے صراحی میں ہاتھ ڈال کر مونگ پھلی سے مٹھی بھر لی۔ مٹھی کھولے بغیر ہاتھ باہر نہیں نکل سکتا۔ اسی بندر کی طرح، نہ ہم مٹھی کھولتے ہیں، کہ ماضی کی مونگ پھلی سے جاتے رہیں، نہ ہاتھ باہر نکال کے حال کو پاتے ہیں۔

میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ لوگ (اشیا، مقاصد) جن کی یاد میں یہاں ہر شخص مجنوں بنا ہے، اسے میسر آ جائیں، تو پسند نہ آئیں گی۔ کیوں کہ جب انسان ایک حصار سے نکل آتا ہے، تو لوٹ کے اسی حصار کی خواہش میں جتنا بھی تڑپتا ہو، غم زدہ ہو، لیکن دوبارہ اس میں مقید ہونا، اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دن انسان کو بدلتا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے، ہم اپنی زندگیوں سے انتہا کے بے خبر ہوتے ہیں۔ گھوم پھر کر دنیا کی خاک چھان کر لوٹ کے وہاں آ جائیں، جہاں کی خواہش تھی، پر وہاں رہ نہیں پاتے۔

لا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ انسان نے زیادہ تر کوشش ہی نہیں کی ہوتی۔ تمام غم اس کوشش کے نہ کرنے ہی کا ہوتا ہے۔ اسے کبھی عشق میں ڈھانپتا ہے، کبھی محبت، تو کبھی غم میں۔ نہ ملنے والی اشیا اور انسانوں کا غم کرنے کو بالی وڈ، لالی وڈ اور ڈراموں نے محبت سے عشق تک کا درجہ دے دیا ہے۔ اس کو لاحاصل کہہ کر خود کو مظلوم سمجھنا، پھر آس اور نراش میں خود کو محصور کرنا اور اسی غم کا روگ لگانا، انتہائی پسندیدہ عمل بنا کے دکھایا جاتا ہے۔ آج کے دور میں، کوئی ایسا نہ کرے، تو ہم اسے بے حس کہتے ہیں، کہ یہ میچور نہیں۔

گزرے وقت کو برا بھی نہیں کہنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ برا کہنا بری بات ہے، بلکہ اس لیے کہ برا کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ جب کہ مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ ماضی سے سبق لینا سیکھیں۔ غم تو آپ لیتے ہی رہتے ہیں۔ غمگین ہونا، غم کا احساس ہونا، بری بات نہیں، یہ انسانی جذبات میں سے ایک جذبہ ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہم جب ایک ہے جذبے میں قیام کرتے، خود کو برباد کرتے ہیں۔

انسان ماضی پرست ہوتے ہیں۔ زندگی کا ہر گزرتا لمحہ، ماضی بنتا چلا جاتا ہے۔ ماضی ایک قبرستان ہے۔ بس نظر نہیں آتا۔ گورستانوں سے گزرتے ہوئے، چند لمحے رک کر فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ ہر قبر پہ بیٹھ کے اسے کھودا نہیں جاتا۔ قبریں ادھیڑی جائیں یا ماضی، دونوں صورتوں میں تعفن کسی دوسرے کی نہیں، ہماری سانسیں روکتا ہے۔ ماضی کا یاد آنا برا نہیں، مشکل وقت کا یاد آنا بھی برا نہیں، برا یہ ہے کہ ہم لوگ حال سے بے خبر، ماضی میں پھنس جاتے ہیں۔ اس درد کو، جسے ہمارا جسم تک سہنا بھول گیا ہو، اسے پھر سے محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ جینا ہے تو خود کے ساتھ وقت گزاریں۔ خود کو جانیے، دوسروں کو تو آپ خود سے کہیں زیادہ جانتے ہیں۔

ویسے میرا بس چلے نا، تو محبوب، عشق، محبت، وفا، بے وفائی، نا کامی، خود ترسی، ہائے یہ مشکل، ہائے وہ مشکل، قسمت خراب، جیسے الفاظ کو پہلے ڈکشنری سے نکال دوں، بعد میں شاعروں کی شاعری سے، فلموں، ڈراموں سے، اور آخر میں ان جیسے تمام لفظوں کو آگ لگا دوں، جن کم بختوں نے ہر دوسرے شخص کو مجنوں بنا کے رکھ دیا ہے۔ میں ماضی میں جب جب گئی، واپس آتے ہوئے قہقہے اور اسباق ساتھ لائی۔ آپ بھی کوشش کر کے دیکھیے، نہایت سکون ہے، اس میں۔

ماضی سے سبق لینا سیکھیں گے، کہ آپ کہاں غلط تھے۔ کیوں غلط تھے۔ کیا بہتر کر سکتے ہیں۔ یہ سب تو ٹھیک، لیکن ماضی سے زخم کرید لانا، حماقت کے سوا کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).