لنگری بابے اور رم جھم کی بشارت


\"jamshedجنگ کی پیش گوئیاں اور یقینی فتح کی بشارتیں دینے والے اُس وقت بھی موجود تھے جب ٹینک تھے نہ تھنک ٹینک۔ یہ لوگ نجومی یا کاہن کہلاتے تھے اور جوشیلے اشعار، لنگر تقسیم کرنے والے بابوں سرحدی رم جھم کی بجائے ستاروں کی چالوں پر نظر رکھتے اور تلواروں کے سایے میں زائچہ بناتے۔ چونکہ یقینی زائچہ تلواروں کی چھاؤں میں نکالا جاتا تھا اس لئے یہ لوگ شکست تک اپنی موت کو ٹالنے کے لئے زنبیل میں صرف فتح کے قرعے لے کر آتے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جنگجوؤں کے حوصلے بلند رکھنے کا سارا ٹھیکہ  ستاروں اور ان کی چال پر کڑی نگاہ رکھنے والوں نے لے رکھا تھا۔ کبھی کبھار یوں بھی ہوتا کہ جنگ کے لئے روانہ ہونے والی افواج پر شکاری پرندے سایہ کرلیتے اور جوان اسے نیک شگون سمجھ لیتے۔ پرندوں کو دیکھ کر حملہ آور یقین کرلیتے کہ قدرت نے، ہلالِ احمر کی عدم کی موجودگی میں، دشمن کی نعشیں ٹھکانے لگانے کا بندو بست خود ہی کرلیا ہے۔ وہ پرندوں کو دیکھ کر نعرے لگاتے، جنگی ترانے گاتے آگے بڑھتے جاتے اور انہیں خبر تک نہ ہوتی کہ نصرت کی اُڑتی نویدیں اپنے پیٹ کی آگ انہی کے ماس سے بجھانے نکلی ہیں۔

پھر وقت نے جناتی زقند لگائی تو یقینی فتح کی بشارتیں لنگر والے بابوں اور رم جھم کی مدد سے دی جانے لگیں۔ یہ بشارتیں دینے والے نجومیوں کی ارتقا یافتہ شکل تھے کیونکہ ان کی بشارتوں کا ماخذ ستارے نہیں ان سے آگے بلکہ اوپر کا جہاں تھا۔ نجومیوں کی دوسری پیڑھی اس حد تک سریع العقل واقع ہوئی تھی کہ شکست کی صورت میں بھی کوئی مائی کا لعل ان کا سر قلم نہیں کرسکتا تھا ۔

تاہم نجومیوں کی چاندی کا یہ سنہری دور زیادہ تر تک نہ چل سکا، کم بخت سائنسی انقلاب آیا تو ایسے تزویراتی ماہرین پیدا ہوئے جنہوں نے جوشیلے اشعار اور آسمانی کتب کی بجائے اعدادو شمار اور تاریخی حساب کتاب کی مدد سے جنگوں میں فتح و شکست کے زائچے بناکر نجومیوں سے بھی کئی گنا مہنگے داموں بیچنا شروع کردیے۔ سائنسی زائچہ سازی کے ان اداروں کو تھنک ٹینکس کا نام دیا گیا۔ ان اداروں کا کافی عرصہ تک شہرہ اور ریل پیل رہی  لیکن چند ماہ قبل بوسٹن گلوب کی 14 ستمبر 2016 کی اشاعت میں سٹیفن کنزر کے ایک ریسرچ آرٹیکل نے ان کا بھی بھانڈہ پھوڑ دیا۔

\"samuel-p-huntington-3\"اس تحقیقی مضمون میں سٹیفن نے ثبوت پیش کردیے کہ دنیا کے نامور اور قابلِ اعتماد سمجھے جانے والے ٹھنک ٹینکس دراصل عسکری صنعت کے مالی تعاون سے چل رہے ہیں۔ دنیا میں کئی ایسے ادارے ہیں جو سائنسی معلوم پڑنے والے جنگی زائچے بناتے ہیں، مختلف ریاستوں کو دشمن کی سہولت باہم پہنچا کر اسلحے کے کاروباری میں برکت اور زمین کو فاضل انسانی آبادی کے بوجھ سے نربھار کرنے کا نیک بھی فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ان کارہائے نمایاں کے علاوہ یہ ادارے تحقیقی و ’علمی‘ مواد بھی شائع کرتے ہیں جن کا بنیادی مقصد مختلف ریاستوں کی دشمن کی تلاش میں مدد اور دشمن نہ ہونے کی صورت میں یہ سہولت گھر کی دہلیز پر پہنچانا بھی شامل ہے۔

 اس آرٹیکل کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بعض صائب الرائے دوستوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ 1996میں شائع ہونے والی سیموئل ہنٹنگٹن کی کتاب ’تہذیبوں کا تصادم ‘ بھی ایسے ہی مواد کی ایک مثال ہے جو یہ جنگ ساز تھنک ٹینکس شائع کرتے رہے ہیں۔ یہ دوست صائب الرائے سہی لیکن ہم ان کی بات کا یقین نہیں کرسکتے کیونکہ وطنِ عزیز میں عسکری ماہرین کی ایک پوری نسل کی روزی روٹی کا انحصار اس ایک کتاب کی صداقت پر ہے۔ ان لوگوں نے اپنی مہارت کا سکہ جمانے کے لئے شبانہ روز پاپڑ بیلے ہیں اور یہ انہی کی محنتوں کا ثمر ہے کہ آج پاکستان تعلیم جیسے غیر اہم میدان میں دنیا سے پچاس برس اور ترقی یافتہ دنیا سے پچاس نوری سال پیچھے کھڑا ہے۔ اس کتاب کی کوکھ سے جنم لینے والے ماہرین کے طوطی کا رنگ عام طوطی کی طرح سبز نہیں لعل ہے  اور کبیر نے اسی رنگ کے بارے میں کہا تھا کہ :

لعلی دیکھن میں گئی میں بھی ہوگئی لعل

یعنی پچاس سالہ تعلیمی پس ماندگی کا ڈسا جو بھی انہیں دیکھ لے یا سن لے، فوراً ان کا رنگ پکڑلیتا ہے۔

\"zaid-hamid\"ان کی ایسی ان گنت دیگر کرامات کے باوجود کچھ شرپسند وں کا، جو اپنے آپ کو پیار سے امن پسند کہتے ہیں، خیال ہے تصادم بربریت کا ہوگا تہذیبوں کا نہیں۔ جس کے نزدیک جنگ مسئلے کی بجائے حل ہے وہ مہذب کہلانے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ یہ شرپسند یہ بھی کہتے ہیں جو چیز تصادم کا باعث بنے گی تو وہ مذہب نہیں، معیشت ہوگی اور یہی معیشت ’تہذیبوں ‘کے تصادم کے خطرات کو ٹالنے کی طاقت بھی رکھتی ہے اگر معاشی عمل میں مفادات تصادم کی بجائے تعاون پر مرکوز ہوں۔ اور تو اور ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے والوں میں مشہور مسلمان دانشور ولید الانصاری بھی شامل  ہیں جو ریاستوں کے مابین تنازعات کو معاشی مفادات کا تصادم قرار دیتے ہیں، مذہبی نہیں۔

کیا ایسے میں یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان بہکی بہکی باتیں کرنے والوں کو بتائیں کہ بھائی کوئی خبر ہے کہ مذاہب کے تصادم کے نظریے سے کتنے گھرانوں کا چراغ اور چولہا جلتا ہے۔ کتنے مسلمان بھائی ٹی وی پر آتے ہیں، اخبارات میں لکھتے اور دانشور کہلاتے ہیں؟ مسلمان تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ ولید الانصاری کی یہ کیسی مسلمانیت ہے جو بھائیوں کے منہ سے مذاہب کے مابین جنگی بشارتوں کے عوض ملنے والے تر نوالے نوچنا چاہتی ہے؟ صرف ولید الانصاری ہی نہیں کچھ ایسے ہی خیالات مسلم دنیا کے صفِ اوَّل کے سیاسیات دان ڈاکٹر ولی نصر کے بھی ہیں۔ میرا خیال ہے ان لوگوں نے مسلمانیت سیکھنی ہے تو فوراً پاکستان آئیں اور رم جھم والی سرکار کی بیعت کرلیں۔

ان کا بیعت کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کلمہ گو دانشوروں کو خبر ہی نہیں کہ ہم صرف شہید ہونے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ ہمارا کوئی مقصود ہے اور نہ\"dr-shahid-masood\" انور مقصود۔ ہماری ہر جنگ مذہبی جنگ ہونے کے ناطے معرکہ حق و باطل ہے۔ ولی نصر غلطی پر ہے  کہ اگر یہ لوگ مذہبی جنگ لڑ رہے ہوتے تو ان کا ڈکشن سیاسی نہیں، مذہبی ہوتا۔ یہ نظام ہائے سیاست سے نہیں، مذاہب سے لڑ رہے ہوتے۔ ان کا ہتھیار آتشیں اسلحہ نہیں، الہٰیات ہوتی۔ ان کا نشانہ جمہوریت، سیکولرازم اور خواتین کی آزادی نہیں، مذاہب ہوتے۔ ان کا جمہوریت، سیکولرازم اور خواتین کی آزادیوں سے لڑنا واضح کرتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے حصول کے لئے لڑی جانے والی جنگ پر مذہب کا لبادہ چڑھایا ہوا ہے۔

لیکن پتہ نہیں یہ صاحب کیا پڑھ کر یہ نتائج اخذ کرتے ہیں۔ وہ کچھ کیوں پڑھتے ہیں جو ہم نہیں پڑھتے؟ سیاست دان بن گئے لیکن یہ خبر نہ ہوئی کہ تھنک ٹینکس کا دور جانے سے تہذیب ایک بار پھر غار کی جانب لوٹ آئی ہے۔ جنگ نہ ہو تو کوئی غار کی طرف کیوں لوٹے؟ یہ سب جنگ کی برکت ہے کہ اب دنیا میں ایک بار پھر نجومیوں کی دوسری نسل کا راج ہوگا۔ اب زائچہ تلواروں کی چھاؤں میں نہیں، ہوا کے دوش پر ہر شہر ہرگاؤں میں نکلے گا۔ لنگر والا بابا ناچے گا اور سرحدوں پر گولہ بارود کی رم جھم بشارت دے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments