ٹیکس کے بارے میں سوچیے اور بور ہونا سیکھئے


آپ کو یقیناً چٹ پٹی تحریریں اچھی لگتی ہیں لیکن آج میرے کہنے پہ یہ خشک تحریر پڑھ کر اپنی رائے دیجئے کہ آپ کی رائے بہت قیمتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام میری بطور عام آدمی کی نظر میں خاصا پیچیدہ اور عام آدمی کے لئے بے فائدہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک ٹھیکیدار کے پاس، لوہے کے کاروبار سے وابستہ ایک شخص کے پاس یا پھر ایک زمیندار کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ ٹیکس گزار بن سکے۔ لیکن ایک عام آدمی کے سامنے پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کیا کرے؟

ٹیکس آفس کے اہلکار بھی باقی محکموں کے چھوٹے اہلکاروں کی طرح کلائنٹ کی جیب پر نظر رکھتے ہیں اور ٹیکس آفس میں ایسا کوئی کاؤنٹر نہیں جو کلائنٹس کو یہ سہولت مہیا کر سکے۔

دوسرا مسئلہ ٹیکس گوشوارے بھرنے کے بعد اس کے نتائج کا ہے، عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثر ہے کہ اگر ہم نے اپنی ساری دولت ظاہر کر دی تو حکومتی ادارے معلوم نہیں اس کے ساتھ کیسا سلوک کریں اور عام آدمی کا یہ خوف بے جا بھی نہیں، تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس نے اپنی پوری ایمانداری سے اپنے ٹیکس ریٹرن ظاہر کر دیے وہی اداروں کے چھوٹے اہلکاروں کے ہاتھوں ذلیل ہوتا رہا۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ جو فائلر نہیں ہے وہ آزاد ہے اور جو اپنی مرضی سے فائلر بن گیا تو پھر ٹیکس وقت پہ نہ بھرنے پہ اسی سے جرمانہ بھی وصول کیا جائے گا اور مسلسل ٹینشن الگ یعنی بقول انشا اللہ خان انشا،

وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا

اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) کی شرح 60 فیصد ہے دوسرے لفظوں میں پاکستان کا ہر شہری ٹیکس گزار ہے لیکن اس کے بدلے میں اسے کیا مل رہا ہے؟ ایک عام آدمی کو یہ آگاہی اور یہ یقین دینے کی ضرورت ہے کہ اس کا ٹیکس واقعی اس کی ترقی پر خرچ ہوگا۔

ایک اور بڑا مسئلہ ٹیکس ریفنڈ کا ہے مثلاً گاڑی خریدنے پر خریدار کو پچاس ہزار سے کئی لاکھ تک ود ہولڈنگ ٹیکس دینا پڑتا ہے جو بعد میں ریفنڈ ہو جاتا ہے لیکن ٹیکس ریفنڈ کا پروسیس اتنا مشکل اور پیچیدہ ہے کہ ٹیکس گزار عموماً اپنے ریفنڈ پہ دو حرف ہی بھیجتا ہے۔ سو حکومت کو اگر ٹیکس لینا ہے تو اسی ایمانداری سے ٹیکس ریفنڈ کے معاملے کو بھی سہل بنانا ہو گا۔ فائلر بننے کے لئے عموماً کسی وکیل کی ہی خدمات حاصل کر نا پڑتی ہیں لیکن معذرت کے ساتھ پروفیشنل وکیل کو ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، عموماً وکیل سے جڑا امپریشن یہی ہے کہ وکیل کے پاس جا کر پیسے ہی گنوانے والی بات ہے اور چھوٹے شہروں میں تو انکم ٹیکس کے معاملات پہ گرفت رکھنے والے وکیل خال خال ہی ملتے ہیں۔ ٹیکس کے وفاقی ادارے کو ٹیکس کے معاملات کو عام فہم اور پبلک فرینڈلی بنانا چاہیے۔

اب ایک انتہائی اہم معاملہ جس پر شاید ہی آج تک کسی نے غور کرنے کی زحمت فرمائی ہو۔

آپ کسی شاپنگ مال میں بیس تیس ہزار کی شاپنگ کریں یا کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھائیں، کسی بھی قسم کی سروس حاصل کریں یا کوئی چیز خریدیں آپ کے بل میں تین چار سو یا ہزار دو ہزار روپے ٹیکس کی مد میں کاٹے جاتے ہیں اور آپ کو اس بات کا کسی طور معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کے خون پسینے کی کمائی واقعی حکومت کے خزانے میں جا رہی ہے یا دکاندار آپ کو چونا لگا رہا ہے۔ لیکن فرض کر لیں آپ واقعی حکومت کو ٹیکس ادا کر کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں تب بھی آپ کا یہ ٹیکس آپ کے کسی کھاتے میں جمع نہیں ہوتا نہ حکومت یہ جان پاتی ہے کہ یہ ٹیکس کس ذمہ دار شہری سے لیا گیا ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ٹیکس جمع کرنے کے ذمہ دار ادارے کوئی ایسی موبائل اپلیکیشن لانچ کریں کہ شہری کا ادا شدہ ٹیکس ایک تو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتا رہے دوسرا اس کے موبائل پر ایک پیغام بھی موصول ہو کہ معزز شہری آپ اتنی رقم ٹیکس کی مد میں ادا کر چکے ہیں۔ اس سے ایک تو شہریوں کو یہ اطمینان حاصل رہے گا کہ وہ واقعی حکومت کو ٹیکس ادا کر رہے ہیں دوسرا اگر کوئی تاجر یا برانڈ اسے ٹیکس کے نام پہ دھوکہ دے رہا ہے تو اس کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

ایک بات بہرحال طے ہے کہ اگر حکومت نے ٹیکس وصول کرنا ہے تو اسے ٹیکس وصولی کے جدید طریقے اپنانا ہوں گے، ٹیکس گزاروں کو سہولیات دینا ہوں گی اور ٹیکس وصولی کے طریقوں کو پبلک فرینڈلی بنانا ہوگا۔
آپ مرچ مصالحے کے بغیر یہ تحریر پڑھ کر یقیناً بور ہوئے ہوں گے لیکن کوئی بات نہیں بور ہونا بھی ایک فن ہے سو سیکھ دیکھئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).