فیض والے بابا جی کا فیض


کچھ عرصہ پہلے میری ایک کزن، انڈیا سے آئی اور آتے ہی مجھے کہنے لگی، ”تم مجھے دربار لے جاؤ، میں فیض والے بابا جی کے پاس بیٹھ کر اپنے سارے آنسو بہا دینا چاہتی ہوں۔“ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ مجھے اس کی بات سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔

”کون سے دربار؟ اور کون سے فیض والے بابا جی؟ ادھر لاہور میں کوئی ایک دربار تھوڑی ہے!“

میرے حیرت میں ڈوبے اس سوال کے جواب میں، وہ کہنے لگی، ”باقی درباروں کا تو مجھے پتا نہیں، میں تو صرف فیض والے بابا جی کے دربار کو جانتی ہوں۔ تمہارے داتا صاحب اور ہمارے فیض والے بابا جی۔“

تب مجھے اس کی بات سمجھ آئی کہ وہ داتا دربار جا کر ”حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش“ مطلب داتا صاحب کو سلام کرنا چاہتی ہے۔ میں اس کو لے گئی۔ دربار پہنچ کر وہ مجھے کہنے لگی۔

”اب تم جاؤ، فیض والے بابا جی سے مجھے اکیلے میں کچھ باتیں کرنی ہیں۔“

میں نے اسے بہت کہا کہ بہن ہمارے ملک میں سب سے زیادہ جرائم پیشہ افراد، مزاروں کے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے بے انتہا اصرار پر میں دربار پر اسے چھوڑ کر آگے اردو بازار کسی کام سے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا وہ اسی عقیدت سے ڈھیر ساری عورتوں کے درمیان سر جھکانے بیٹھی ہے۔ چند لمحوں کے لئے مجھے یوں لگا جیسے فیض والے بابا جی سے سارا فیض اس نے ان چند لمحوں ہی میں پا لیا ہو۔ تب مجھے اس پر رشک آیا کہ داتا کی نگری سے ہزاروں میل دور رہنے کے با وجود اس کی فیض والے بابا جی سے کس قدر عقیدت ہے۔ جب کہ میں انہی فضاؤں میں سانس لینے کے با وجود عقیدت مندوں کی قطار میں، اس سے کہیں پیچھے کھڑی ہوں۔

آپ نے لاہوریوں کے بارے میں وہ لطیفہ تو سن رکھا ہو گا کہ جب صحن حرم میں چلتے پھرتے، ایک شخص اپنے دوست کو فون کر کے کہتا ہے، ”اللہ کے گھر پہنچ کر اسے بہت سکون ملا ہے، لیکن طبعیت کچھ نا ساز ہے۔ تم داتا دربار پر جا کر میرے لئے دعا کر دینا۔“

یہ عقیدتوں کے بھید ہیں۔ ہماری محدود عقل میں یہ نہیں سما سکتے۔ کرونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے داتا دربار کچھ عرصہ بند رہا۔ ہماری ایک ملنے والی کچھ عرصے سے پریشان تھیں۔ ان سے پریشانی کا سبب پوچھا، تو کہنے لگیں۔ بیٹی کا آپریشن ہے لیکن پریشان ہوں کہ نجانے آپریشن کامیاب ہو گا یا نہیں، کیوں کہ داتا صاحب پر تو تالا لگ گیا ہے۔ اب دعا ان کی طرف کیسے بھیجوں۔

داتا دربار پر منتوں اور مرادوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ میری ایک دوست امتحانات کے نتیجے سے پہلے دربار پر دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ دربار کے لنگر خانے میں دیگ ضرور دے کر آتی تھی۔ اس کا عقیدہ تھا کہ اس دعا کی برکت سے اسے کامیابی ضرور ملے گی۔

میری ایک دوست مزاروں پر جانے کے سخت خلاف ہیں۔ داتا صاحب کہنے سے بھی منع کرتی ہیں۔ لیکن دربار کے پاس سے جب بھی گزرتی ہیں۔ کچھ لمحوں کے لئے ٹھہر جاتی ہیں۔ ان کی اس عجیب سی عقیدت کو میں کبھی سمجھ نہیں پائی۔ ایک بار مزار پر بیٹھے ایک شخص سے میں نے پوچھا کہ تم یہاں کیوں آتے ہو۔ جانتے ہو یہ بدعت ہے۔ ایسا نہ ہو اس اندھی عقیدت میں تم شرک کی طرف چلے جاؤ۔ جانتے ہو شرک کی معافی نہیں ہے۔

میری اس بات کے جواب میں وہ شخص عجیب سے انداز میں مسکرایا اور کہنے لگا، ”باجی، فیض والے بابا جی ہمیں ہمارے رب کے اور قریب کر دیتے ہیں۔ باجی، یاد رکھنا اللہ والے ہی اللہ کے قریب کرتے ہیں۔“

میں اس کی بات کے جواب میں خاموش ہو گئی تھی، کیوں کہ اب میرے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).