انسانی حقوق اور بین المذاہب ہم آہنگی


خدا نے انسان کو آزاد مرضی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، لہذا آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کسی انسان کو حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اذیت پہنچائے یا حقیر جانے۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، مذہب یا فرقے سے ہو۔ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ وہی کچھ کرے جو اس کی منشا ہے یا اسے بھلا لگتا ہے۔ بنی نوع انسان کا آپس میں بہرصورت انسانیت کا رشتہ ہے۔ لیکن زمینی حقائق ذرا مختلف ہیں۔ ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی ایک پہچان کو بنیاد بنا کر خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔

اس میں سب سے بڑا عنصر مذہب ہے، جب کہ رنگ، نسل یا فرقے کی بنیاد پر بھی ایسا رویہ اختیار کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ مذاہب کا مطالعہ کریں، تو یہودیت وہ پہلا مذہب ہے، جس کے ماننے والے اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد دین اسلام کے پیروکار خود کو جنت کے وارث گردانتے ہوئے، صرف مسلمانوں کو پاک تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح مسیحیوں کا بھی اپنا ایک نقطۂ نظر ہے۔ یہ مذاہب خدائی مذاہب ہونے کے دعویدار ہیں اور اس بنیاد پر ہندو، سکھ، پارسی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو کمتر سمجھتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں رنگ، نسل، فرقے، صنف یا مذہب کی بنیاد پر یہاں کے باسیوں پر ظلم و ستم ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں بسنے والے افراد کے ساتھ بھی، نا صرف ذات پات، فرقے یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی برتاؤ کیا جاتا ہے، بلکہ صنفی بنیادوں پر بھی عورتوں اور خواجہ سراؤں کو کمتر سمجھتا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں برابری کے مواقع نہیں دیے جاتے اور وہ محرومی کا شکار ہیں۔ آزادی رائے پر مختلف طریقوں سے قدغن لگائی جاتی ہے، حالاں کہ آزادی رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

ہمارے وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے اسلامو فوبیا کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے ملک میں اسلامی برتری کی بنیاد پر کیسے کیسے قوانین بنائے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنائی گئی ہیں اور کئی بستیاں تباہ ہوئی ہیں۔ وزیر اعظم بین الاقوامی سطح پر مذہبی بنیادوں پر ایذا رسانیوں کی بات کرتے ہوئے، کبھی پاکستان سمیت سوڈان، کینیا، اور دیگر افریقی اور خلیجی ممالک میں مذہبی بنیاد پر ہونے والی ایذا رسانیوں کی بات نہیں کرتے۔

آزادی رائے کو بنیاد پر اسلام پر تنقید کرنے والوں پر بات کی جاتی ہے، مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے دیگر مذاہب کی تحقیر کرنے والوں کی کبھی مذمت نہیں کی جاتی۔ سوشل میڈیا سے لے کر منبر پر بیٹھ کر کے خادم حسین رضوی جیسے مولوی گالی گلوچ اور تحقیر آمیز رویے سے دیگر مذاہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ نام صرف ایک مثال ہے، ورنہ مسلمانوں کے دل میں دیگر مذاہب کی کیا عزت ہے، وہ یہاں بتانے کی ضرورت نہیں۔ اسے دہرا معیار نہیں تو کیا کہا جائے؟

مسلمانوں کا دیگر مذاہب کے ساتھ تو اختلاف موجود ہے، لیکن اسلام کے اندر شیعہ، سنی اور دیگر فرقوں کے آپس کے تضاد اس قدر شدید ہیں کہ ایک دوسرے کو کافر قرار دینے، حتی کہ مارنے سے نہیں کتراتے۔ ایک طرف یہودی اس بات کو لے کر خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم ہیں اور فلسطین پر محض اس وجہ سے قبضہ کیے بیٹھے ہیں کہ توریت کے مطابق یہ یہودیوں کی وعدہ کی گئی زمین ہے اور اس زمین پر کسی دوسرے کو بسیرا کرنے کا حق نہیں۔

بالکل اسی طرح مسلمان خود کو جنت کے اکلوتے وارث سمجھتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کون سے والے مسلمان؟ سنی، شیعہ، بریلوی یا کوئی اور؟ جہاں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، وہیں مخصوص اداروں کی الگ سے اجارہ داری ہے اور اس سے وابستہ لوگ دیگر شہریوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نا ملکی معیشت مضبوط ہو سکی اور نا عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو سکا۔ جب کہ ہم نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے تمام وسائل صرف کر دیے، اور تا حال کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔

پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے افراد، اس لحاظ سے دہرے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ ایک طرف مذہب کی بنیاد پر بستیاں جلائی جاتی ہیں، گرجا گھروں اور مندروں کو مسمار کیا جاتا ہے۔ امتیازی قوانین کی بنیاد پر دیگر مذاہب کے لوگوں کو نا صرف توہین رسالت کے قوانین میں پھنسایا جاتا ہے، بلکہ دیگر مقدمات میں بھی پھنسا کر اذیت دی جاتی ہے۔ کشمیر میں تو بھارت آزادی کی جنگ لڑنے والے یا تحریک چلانے والے کشمیریوں کو پکڑتے ہیں، مگر یہاں اپنے ہی ملک میں بسنے والے پر امن شہریوں کی حب الوطنی پر شک، مخصوص عزائم حاصل کرنے کے غرض سے کیا جاتا ہے اور مقدمے قائم کیے جاتے ہیں۔

میرا خیال ہے، انسانیت سب انسانوں کے درمیان سب سے بنیادی رشتہ ہے۔ اگر ہم مذہب کے ٹھیکیدار بننے کے بجائے، سب سے پہلے انسان بن جائیں اور اسی بنیاد پر ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور رائے کا احترام کریں، تو بہت سے مسائل، بہت سی لڑائیاں اور کیمیائی ہتھیاروں جیسے مسائل ختم ہو جائیں۔ ایک محب وطن پاکستانی کا یہی خواب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).