پھر امام شافعی شہید ہو گئے – مکمل کالم


مذہبی معاملات میں جہاں غلطی جان بوجھ کر کی جائے یا غلطی ہو جائے اس کی قیمت معاشرے کا ہر طبقہ ادا کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے سبب سے بزرگ علما تہہ خاک سلا دیے جاتے ہیں مگر پھر بھی اس کی قیمت اور تقاضے کبھی نہیں تھمتے۔ امام شافعی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے آپ امام مالک کے شاگرد ہیں، امام احمد بن حنبل آپ کے شاگرد ہیں جبکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد سے کوفہ میں تحصیل علم کی۔ امام ابو حنیفہ کے بعد ان کے دو شاگرد ان کی مسند پر موجود تھے امام محمد اور امام ابو یوسف، جب مکہ سے طلب علم کے لیے امام شافعی مدینہ پہنچے تو امام مالک کے درس میں حاضر ہونا شروع ہو گئے امام مالک نے دیکھا کہ ایک نوعمر لڑکا ان کے درس کے دوران مسلسل تنکا منہ میں ڈالتا ہے اور ہاتھ پر مارنے لگتا ہے دوران درس وہ اس کو دیکھتے رہے مگر اس وقت نہیں ٹوکا۔

جب اس روز کا درس مکمل ہوا تو سب طالبعلموں کو جانے کی اجازت دے دی مگر اس نو عمر لڑکے کو روک لیا جو بعد میں امام شافعی بنا۔ اپنے پاس بلا لیا اور دریافت کیا کہ تم کون ہو حسب نسب پوچھا پھر بولے اچھے خاندان کے ہو مگر درس کے آداب میں بے ادبی کر رہے تھے۔ امام شافعی نے پوچھا کہ مجھ سے کیا بے ادبی سرزد ہو گئی؟ امام مالک نے منہ میں مسلسل تنکا لینے اور ہاتھ پر مارنے کا ذکر کیا امام شافعی نے جواب دیا کہ میرے پاس لکھنے کے لئے قلم وغیرہ نہیں ہے منہ کے لعاب سے آپ کی بیان کردہ احادیث مبارکہ اپنے ہاتھ پر تحریر کر رہا تھا امام مالک نے ہاتھ دیکھیے اور کہا کہ ان پر کہاں تحریر ہے؟

امام شافعی نے جواب دیا کہ ان پر تو موجود نہیں رہ سکتا مگر میرے حافظے میں موجود ہے۔ اچھا تو پھر سب نہ سہی ایک حدیث ہی سنا دو۔ مگر امام شافعی نے ایک نہیں بلکہ وہ پچیس احادیث مبارکہ سند کے ساتھ سنا دیں جو امام مالک نے اس درس میں بیان فرمائی تھی۔ امام مالک اپنے شاگرد کی قابلیت کو بھانپ گئے اس غریب الوطن کو اپنے گھر لے گئے اور جب تک امام شافعی مدینہ ٹھہرے اپنے استاد امام مالک کے گھر ٹھہرے۔ امام مالک اپنے شاگرد سے اتنی محبت کرتے تھے کہ جب امام شافعی مدینہ سے کوفہ روانہ ہونے لگے تو اپنے اس شاگرد کو رخصت کرنے مدینہ کے آخر تک خود تشریف لائے۔

خیال رہے کہ امام مالک نے امام شافعی کو فتوی دینے کی اجازت دے دی تھی کہ اس وقت امام شافعی کی عمر کم و بیش 16 سال تھی۔ آپ کوفہ پہنچے، مسجد کوفہ میں ایک شخص کی نماز میں کوتاہی کے سبب سے ایک بحث چھڑ گئی اور آپ امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد امام محمد سے متعارف ہو گئے۔ امام محمد بھی آپ کے اندر کی قابلیت کو بھانپ گئے۔ اب امام شافعی امام محمد کے مہمان تھے اور ان کی شاگردی میں اپنا علم بڑھا رہے تھے۔ حالاں کہ اپنے استاد امام محمد سے دوران درس اختلافی نقطہ نظر بھی پیش کر دیتے مگر امام محمد کے ماتھے پر شکن کبھی نہ آئی۔

امام شافعی کوفہ سے وطن واپس روانہ ہوئے تو مدینہ میں امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے مدینہ سے گئے ہوئے سات آٹھ سال کا عرصہ بیت چلا تھا۔ امام مالک کے درس میں بیٹھ گئے گفتگو میں حصہ لیا امام مالک پہچان گئے کہ یہ ان کا ہونہار شاگرد شافعی ہے۔ درس ”جرح عمد“ پر ہو رہا تھا امام مالک نے اپنی مسند چھوڑ دی اور ہاتھ پکڑ کر امام شافعی کو اپنی مسند پر بٹھا دیا کہ باقی درس اب تم دو۔ امام شافعی مکہ واپس چلے گئے تو وہاں درس و تدریس میں مشغول ہو گئے اور آپ کے تمام اخراجات امام مالک مدینہ سے بھجواتے رہے۔

گیارہ برس ایسے ہی بیت گئے کہ امام مالک وفات پا گئے اور امام شافعی کو اخراجات پورے کرنے کے لیے والی یمن کی اس پیشکش کو قبول کرنا پڑا کہ آپ عامل نجران بن جائیں۔ والی یمن نے آپ کو عامل نجران کے عہدے پر مقرر کر دیا مگر یہ نہ بھانپ سکا کہ یہ نوجوان کسی خوف یا لالچ میں آ کر فیصلے نہیں کرے گا۔ والی یمن خود سفاک اور بدعنوان تھا لیکن امام شافعی ان خباثتوں سے کوسوں دور، بھلا والی یمن کو یہ کیسے برداشت ہوتا۔ سازش ہونے لگی عباسی خلافت کو خط لکھا کہ امام شافعی آپ کے خلاف سازش میں شریک ہے۔

دربار خلافت نے ہتھکڑیوں بیڑیوں میں جکڑ کر حاضر کرنے کا حکم دیا دربار میں آپ کے سامنے 9 افراد کو اسی شک کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا جب امام شافعی کی باری آئی تو آپ کے سامنے والی یمن کی سازش بے نقاب ہوئی کہ اس کی چیرہ دستیوں کو روکنے کی وجہ سے یہ سازش رچی گئی ہے۔ شمشیر آپ کا لہو پینے کے واسطے چلنے کو بس آمادہ ہی تھی کہ امام محمد دربار میں پہنچ گئے۔ امام شافعی اپنے استاد سے مخاطب ہوئے امام محمد پہچان گئے کہ یہ تو ان کا شاگرد محمد بن ادریس شافعی ہے اور کسی نہ کسی طرح عباسی خلافت کے غضب سے ان کو بچا لیا اور خلیفہ نے ان کو امام محمد کی نگرانی میں دے دیا اور آپ کی تعلیم میں دوبارہ چار چاند لگ گئے حالانکہ امام محمد کے ساتھ ساتھ امام مالک سے بھی کچھ معاملات میں دوسری رائے رکھتے تھے۔

یہ دوسری رائے رکھنا آپ کو امام مالک نے ہی سکھایا تھا کیونکہ جب خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ آپ کی کتاب ”موطا“ کی فقہی آرا کو سرکاری قانون کا درجہ دے دیا جائے اور پوری امت کو اس کا پابند کر دیا جائے تو اس وقت امام مالک نے جواب میں فرمایا تھا کہ آپ ایسا نہ کریں، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین مختلف علاقوں میں پہنچے تو ان سے لوگوں کو مختلف احادیث معلوم ہوئیں اور انہوں نے اپنے معتمد علیہ علما کی تحقیق کو اختیار کر لیا تو آپ زبردستی ان کو میری رائے کا پابند نہ کریں اس طرح زیادہ خرابی پیدا ہوگی۔

امام مالک کی تو یہ رائے تھی مگر جب کم عقل کتابیں پڑھ کر عالم کہلانے لگیں تو بربادی راستہ دیکھ لیتی ہے۔ امام شافعی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب آپ مصر تشریف لے گئے تو خلقت آپ کے گرد جمع ہونے لگی۔ وہاں کے مالکی فقہ کے بزعم خود عالم اس صورتحال سے گھبرا گئے کہ اس سے ان کی مسندیں ویران ہونے لگ گئی۔ مصر میں فتیان بن ابی السمح ایک مالکی عالم تھا اور امام شافعی کا سخت مخالف، ایک دن امام شافعی سے کسی علمی مسئلے پر الجھ پڑا۔

جو عالم نہ ہو صرف علم کے لبادے میں ہو وہ تہذیب و اخلاق کا دامن فوراً چھوڑ دیتا ہے سو فتیان نے بھی یہی رویہ اپنا لیا معاملہ عدالت تک گیا اور فیصلہ امام شافعی کے حق میں آ گیا اور آپ کے خلاف بغض عروج پر پہنچ گیا سازش ہونے لگی۔ ایک دن امام شافعی عشا کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے گھر کے لئے روانہ ہوئے ایک چھوٹی گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص گرز لئے نمودار ہوا اور امام شافعی کے سر پر دے مارا اور تاریکی میں گم ہو گیا امام شافعی کو زخمی حالت میں گھر پہنچا دیا گیا اور دوسری طرف فقہ مالکی کا عالم اشہب بن عبدالعزیز سجدے میں دعا کر رہا تھا کہ اے الہی شافعی کو اٹھا لیں ورنہ مالکی فقہ مٹ جائے گی۔ اس شافعی کو اٹھانے کی دعا کہ جو امام مالک کا چہیتا شاگرد اور ان کی اجازت سے صاحب فتوی بنا تھا، اسی امام مالک کے ماننے والوں کے ہاتھوں تیس رجب 204 ہجری کو راہی ملک عدم ہو گیا۔

صرف مذہبی عدم برداشت کی سبب سے، اور اسی مذہبی عدم برداشت کا سامنا مسلمان ممالک اور وطن عزیز کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ ابتدا میں مذہبی معاملات میں غلطی کی صورت میں اس کے نقصانات کی جانب اشارہ کیا تھا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز دوبارہ سے ان نقصانات کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔

امام شافعی کی داستان صرف ایک کہانی نہیں بلکہ عظیم سبق رکھتی ہے کہ ایک راستہ یہ ہے کہ امام مالک، امام محمد اور امام شافعی کے راستے پر چلا جائے کہ اختلاف کا مطلب عدم احترام یا تشدد نہیں ہوتا اور دوسرا راستہ فتیان بن ابی السمح اور اشہب بن عبدالعزیز کا ہے کہ جس میں اختلاف کی سزا صرف تشدد ہے کہ جس تشدد سے امام شافعی جیسے جدا ہو جاتے ہیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم نے کس کے راستے کو اختیار کرنا ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).