خستہ حالی بہ اندر دمشق


گزشتہ چند ہفتوں سے ملکی برامدات صفر کے قریب آنے، تیل اور گیس کے ٹرمینلز کو گنجائش سے کم استعمال کرنے، تارکین وطن کے آجر ممالک میں کورونا اور دیگر اسباب سے کساد بازاری کے سبب کی جانب سے رقوم کی ترسیل میں کمی اور موجود وسائل کو فوجی بجٹ میں جھونکنے کے سبب ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے۔ احباب خاطر جمع رکھیں، یہ خادم شام کی بات کر رہا ہے، اگرچہ یہ گمان گزرنا بعید از قیاس نہیں کہ ”بات گویا یہیں کہیں کی ہے“ ۔ سو صورت حال یہ ہے کہ پٹرول پمپوں پر کئی کئی کلو میٹر لمبی گاڑیوں کی قطاریں نظر آتی ہیں اور پٹرول راشن کے حساب سے دیا جا رہا ہے۔ چند روز میں سردی شروع ہو جائے گی تو مائع گیس کا بحران بھی رونما ہونے کا اندیشہ ہے۔

حالت حرب اپنی جگہ لیکن ایک تو پہلے ہی اس ملک پر چند عالمی طاقتوں اور ان کے حلیفوں کی جانب سے تکلیف دہ اقتصادی پابندیاں عائد تھیں۔ جو تھوڑا بہت گزارا ہمسایہ لبنان اور کسی حد تک اردن سے تجارت کے سبب ہو رہا تھا، وہ بھی بند ہو چکا ہے۔ احباب کو علم ہوگا کہ سال گزشتہ کے آخری مہینوں میں لبنان میں نوجوان طبقے کو تبدیلی اور بد عنوانی کے خاتمے کا شدید شوق چڑھا تھا۔ کسی سیاسی سمت اور واضح اہداف کی عدم موجودگی کے باعث ان احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں سے اور تو کچھ حاصل نہ ہوا البتہ سرمایہ کاروں کا اعتماد جڑ سے اکھڑ گیا۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی۔

ڈیڑھ عشرے سے ایک ڈالر کے عوض پندرہ سو لبنانی لیرا کی شرح تبادلہ مستقل چلی آ رہی تھی۔ سرکاری ریٹ تو اب بھی یہی ہے البتہ بازار میں ڈالر کے عوض آٹھ ہزار لیرا بہ آسانی دستیاب ہونے لگا ہے۔ اس کا شام کی صورت حال پر بہت برا اثر پڑا ہے اور اشیائے صرف کی قیمتیں چڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اوسط فی خاندان ماہانہ مقامی آمدنی بمشکل گیارہ دن کی ضروری اشیائے صرف کے لیے کافی ہے۔

یہ خادم یہ دیکھ کر شدید دل گیر ہوتا ہے کہ جانے پہچانے کاروبار، ریستوران، کریانہ کی دکانیں ایک ایک کر کے بند ہو رہے ہیں۔ لوگ، خصوصاً نوجوان طبقہ تیزی سے بے روزگار ہو رہا ہے اور ان کے غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ان سب سے ماسوا گزشتہ چند ہفتوں سے یہ دیکھنے میں آ رہا تھا کہ ہم کاروں اور دفتر کے عمومی ماحول پر ایک عجب افسردگی چھائی رہتی تھی۔ اپنی ہم کار رانین بی بی سے، معنی جن کے نام کے ”بانگ درا“ ہوتے ہیں، پوچھا کہ خاتون، تمہیں تو نہ سوز و ساز رومی کے مسائل ہیں نہ پیچ و تاب رازی کے، تو کام میں بے دلی کا کیا سبب ہے؟ جواب میں عربی کے ہی نہیں، کسی بھی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور محدود علم میں اضافہ ہوا۔ بولیں کہ اسے ”کآبۃ الخریف“ یعنی ”آٹم ڈپریشن“ یعنی خزاں کی پژمردگی کہتے ہیں اور یہ پورے شمالی نصف کرے پر طاری ہے۔ لیجیے، اس لحاظ سے تو یہ خادم سال کے بارہ مہینے خزاں کے دور میں جیتا ہے۔ لیکن اس میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے چونکہ خنکی بڑھنے کے ساتھ ساتھ چستی بھی بڑھ رہی ہے۔ یا پھر یہ کہ پژمردگی نیا معمول بن گئی ہے۔ واللہ اعلم۔

بروز جمعہ یہ خادم اپنی باقی ماندہ زلفوں اور سفید ہوتی ریش کی تراش کے لیے نکلا تو ایک گلی میں ”جامعۃ الرشید“ کا کتبہ نظر پڑا۔ پاکستان میں شدت پسندی اور جہاد بالسیف کے ضمن میں اس ادارے کا نام بجا، یا بے جا طور پر معروف ہے۔ قریب جا کر پتا چلا کہ میاں، ناموں کی مماثلت پر مت جاؤ۔ یہ ایک چھوٹی سی نجی جامعہ ہے جو قطعی عصری علوم جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ وغیرہ کی تعلیم دیتی ہے۔

اتفاق سے اس جامعہ کے مقامی دفتر کے بالمقابل برقی آلات کی دکان واقع ہے جس کے مالکان کا خاندانی نام ”مظلوم“ ہے۔ یہ خادم اکثر سوچتا ہے نجانے ان لوگوں پر ماضی میں کیا بپتا پڑی ہوگی۔ کسی دوست نے قیاس آرائی کی کہ ممکن ہے یہ لوگ اہل تشیع ہوں اور امام مظلوم کی نسبت سے یہ نام پڑا ہو۔ لیکن ایک اور جگہ ”معاویہ مظلوم“ کی تختی دیکھ کر یہ شک بھی رفع ہوا۔ کسی اور جگہ ”غدار“ نام بھی نظر آیا۔ معنی پوچھے تو ہمارے اردو والے کے قریب ہی نکلے۔

ایک اور دکان کو ، جو ابھی چند ہفتے پہلے تک ائر کنڈیشنر، ہیٹر اور گیزر وغیرہ کا اچھا خاصا کام کر رہی تھی بند دیکھ کر دل ملول ہوا۔ لیکن قریب جا کر دیکھا تو اس میں بھی ایک حوصلہ افزا پہلو نظر آیا۔ لکھا تو یہی تھا کہ کاروبار برائے فروخت، لیکن نیچے لکھا تھا ”ملکیت، دانہ الحمویہ اور خاتون شریک کار“ ۔ گویا خاتون خودمختاری سے کاروبار کر رہی تھی بلکہ اس کی شریک بھی خاتون ہے اور وہ فخر سے اس کا اعلان کر رہی ہے۔ ہم اس راہ پر کہاں رکے ہوئے ہیں، محتاج بیان نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).