ٹک ٹاک پر پاکستان میں پابندی سے لاکھوں فالوورز والے سوشل میڈیا سٹارز پریشان



پنجاب کے دور دراز گاؤں میں بھٹے پر اینٹیں بنانے والا مزدور ہو یا قومی ائیر لائن میں کام کرنے والی فضائی میزبان یا پھر سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچا دینے والی حریم شاہ، پاکستان میں ٹک ٹاک کی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نوجوانوں میں مقبول اس سوشل میڈیا ایپ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

حتیٰ کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے کووڈ 19 سے متعلق آگہی پھیلانے کے لیے پاکستان کے چند مشہور ٹک ٹاک سٹارز کو گورنر ہاؤس بھی مدعو کیا تھا۔

ٹک ٹاک نے ایسے بے شمار لوگوں کو اپنا ہنر دکھانے کا موقع فراہم کیا جنھیں شاید کوئی جانتا تک نہ تھا اور دیکھتے ہیں دیکھتے ان میں کئی افراد راتوں رات سٹار بن گئے اور وہ میڈیا بھی انھیں توجہ دینے پر مجبور ہو گیا جو پہلے انھیں نظرانداز کرتا رہا تھا۔ بیرونِ ملک ہونے والے شوز میں انھیں بلایا جانے لگا۔ لیکن جیسے جیسے پاکستانی نوجوانوں میں اس ایپ کی مقبولیت بڑھی، اس سے جڑے تنازعات نے بھی سر اٹھایا اور بات تنبیہ سے ہوتی ہوئی پابندی تک جا پہنچی۔

اور بالآخر گذشتہ روز پاکستانی حکام نے مختصر دورانیے کی ویڈیوز کی اس ایپ ٹک ٹاک پر’غیر اخلاقی مواد‘ کی شکایات موصول ہونے کے باعث پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔

پاکستان میں مواصلات کے ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے ایپ پر پابندی لگاتے ہوئے کہا گیا کہ ‘معاشرے کے مختلف طبقات’ کی جانب سے ایپ پر موجود مواد کے خلاف شکایات کی گئیں تھیں۔

اس ایپ پر پابندی کے متعلق ٹک ٹاک کا مؤقف تو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے لیکن پاکستان میں رہنے والے ایسے بے شمار افراد ہیں جنھیں اس ایپ نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ لاکھوں فالوورز والے ایسے ٹک ٹاکرز اس پابندی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں اس ایپ کے نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔

کبیر آفریدی کے ٹک ٹاک پر تقریباً 15 لاکھ سے زائد فالوورز ہیں اور وہ عموماً پاکستان میں سیاحت سے متعلق مواد شئیر کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کبیر آفریدی کا کہنا تھا کہ ہمارے اسلامی معاشرے کے لحاظ سے دیکھیں تو پی ٹی اے نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل نوجوانوں کا دور ہے اور اس ایپ نے ان نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں انٹرٹینمٹ کے ساتھ ساتھ نئے ٹیلنٹ کو بھی سامنے آنے کا موقع ملتا ہے۔

کبیر کا ماننا ہے کہ پابندی کوئی حل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی اے کو مواد سے متعلق کوئی شکایت تھی تو اس کے لیے وہ کچھ قواعد و ضوابط بنا سکتے تھے اور سنسرز وغیرہ لگا سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی ویڈیو میں ہمارے معاشرے کے لحاظ سے کوئی نازیبا مواد دکھایا جا رہا تھا تو اسے بلاک کیا یا ہٹایا جا سکتا تھا لیکن ٹک ٹاک پر پابندی کوئی حل نہیں، اس طرح تو کل کو سارا انٹرنیٹ بند کرنا پڑے گا۔‘

نائلہ

ٹک ٹاک پر پابندی کا سن کر مجھے نائلہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے

سیالکوٹ کے ایک پسماندہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی نائلہ جٹ بھی ایک مشہور ٹک ٹاک سٹار ہیں اور سادہ سے لہجے میں بنائی گئی ویڈیو کے باعث ان کے کروڑوں فالوورز ہیں۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے نائلہ جٹ خاصی پریشان نظر آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ٹک ٹاک پر پابندی کا سن کر مجھے بہت بڑا دھچکا لگا ہے، حکومت نے بہت غلط کیا ہے۔‘

تاہم کبیر کی طرح نائلہ کا بھی یہ ماننا ہے کہ ’حالیہ کچھ عرصے سے ٹک ٹاک پر ’بے حیائی‘ کچھ زیادہ ہی پھیل رہی تھی، لہٰذا اب جب بھی اس ایپ سے پابندی ہٹائی جائے تو ’بےحیائی‘ پر قابو پانے کے لیے کچھ قواعد لازمی لاگو کیے جائیں۔‘

سوشل میڈیا پر بحث

تنقید اور تنازعات میں گھری ایپ ٹک ٹاک پاکستان کی قومی ائیرلائن کے عملے کی معطلی کی وجہ بنی تو کبھی حریم شاہ کی وزارت داخلہ میں داخلے پر انکوئری کی گئی۔ لیکن اس ایپ کا جادو دیکھیے کہ روز بروز اس کے صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں ماہانہ دو کروڑ افراد ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی کے بعد ٹاک ٹاک سٹارز اور ان کے فالوورز نے احتجاج کے لیے ٹویٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سہارا لیا اور رات گئے تک #tiktokban #BANNED ٹرینڈ کرتے رہے جس میں صارفین شکایت، حکام پر تنقید اور میمز شیئر کرتے نظر آئے۔

ڈاکٹر نامی صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت نے پہلے ان ٹک ٹاکرز کو کورونا وائرس کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے مدعو کیا اور پھر ان پر پابندی ہی لگا دی۔‘

رضا لکھتے ہیں ’یہ کوئی جمہوریت نہیں بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہے۔‘

کئی صارفین پریشان ہیں کہ پاکستان کی جانب سے پابندی پر چین کا کیا ردِعمل ہو گا۔

عمران شفقت پوچھتے ہیں ’ٹک ٹاک ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے۔ امریکہ اور انڈیا کا الزام ہے کہ چین اس ایپ کو جاسوسی کے لیے استعمال کرتا ہے اس لیے انھوں نے بین لگا دیا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے اس پر پابندی کیوں لگائی؟ کیا ہم امریکہ اور انڈیا کے ہم خیال ہیں؟‘

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر اس پابندی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’جون میں انڈیا نے اور اگست میں امریکہ نے چائنیز ایپ ٹک ٹاک بین کیا، جس کی کی وجہ سیاسی اور سفارتی تعلقات تھے۔ لیکن آج پاکستان نے فحاشی کا الزام لگا کر بند کر دیا اگر اس سے ریپ کے کیسز ختم ہوتے ہیں تو اچھی بات ہے ورنہ یہ سیاسی اور سفارتی ترجیحات کی طرف اشارہ ہے۔

انور مقصد نے لکھا ’ٹک ٹاک بند ہو گیا۔ اب مہنگائی میں تیزی سے کمی آئے گی۔ غریب خوشحال ہو جائے گا۔ اپوزیشن کی کمر بھی ٹوٹ جائے گی۔‘

صحافی غریدہ فاروقی ٹک ٹاک پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’ہم ہر چیز پر پابندی لگا کر ملک کو کس سمت میں دھکیل رہے ہیں؟ نوجوانوں کے لیے اب یہاں کون سے مواقع باقی ہیں؟ چین کو کیا پیغام مل رہا ہے؟‘

ان کا ماننا ہے کہ یہ جلد بازی اور سوچے سمجھے بغیر لیا گیا فیصلہ ہے جو جلد ہی تبدیل ہو گا۔

ایک اور صارف نے تبصرہ کیا ’پابندی اچھی بات مگر ٹی وی ڈرامے فحاشی کا سب سے بڑا سبب ہیں اُن کے خلاف تو کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، بچوں کے ہاتھ میں موبائل فحاشی کی مشین گن ہے اُس کو کون روکے گا، بندش نہیں اچھی تربیت کی ضرورت ہے۔‘

ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ ’پہلی بار میں نے پاکستان میں ایک ایسا پلیٹ فارم دیکھا جہاں ایک عام آدمی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ ایک کمیونٹی بنا سکتا تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’یہ واقعی بہت افسوسناک ہے کہ اس ملک میں چھوٹے طبقے کو پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر پہچان ملی لیکن ان سے وہ چھین لی گئی۔‘

لیکن جہاں اس پابندی کے خلاف تنقید اور احتجاج کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں ایسے افراد بھی ہیں جو اس پابندی سے خوش ہیں۔

انور لودھی لکھتے ہیں ’ٹک ٹاک پر پابندی اس حکومت کا بہترین فیصلہ ہے۔ یہ ایپ ہماری نوجوان نسل میں بے راہ روی کے فروغ کا سبب بن رہی تھی۔‘

عاطف بلال بھٹہ نامی صارف بھی اس پابندی سے خوش دکھائی دیے۔ انھوں نے لکھا کہ ٹک ٹاک بین ہونے کی مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے جتنی ایک شدید کنوارے بندے کو یہ سن کر ہوتی ہے کہ ’تیرا رشتہ پکا ہو گیا ای‘۔‘

ماجد بھٹی پابندی کو اچھا فیصلہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’میرا یہ ماننا ہے کہ اس ایپ سے بےحیائی، انسانی رشتوں کا مذاق بنانا اور علاقائی تعصب میں اضافہ ہو رہا تھا، اس لیے اچھا اقدام ہے۔‘

یاد رہے کہ رواں سال اگست میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ کسی قسم کی لین دین پر پابندی لگائی گئی تھی۔

اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا ہوگی۔

ٹک ٹاک ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے ڈیٹا پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے یا اس تک چینی حکومت کو رسائی حاصل ہے۔

ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تقریباً ایک سال تک مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں اپنایا گیا اور ان کا سامنا ایک ایسی انتظامیہ سے ہوا جو ‘حقائق کو چنداں توجہ’ نہیں دیتی۔

اس کے علاوہ جولائی میں انڈین حکومت نے ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔

چین کے ساتھ لداخ کے سرحدی علاقے میں کشیدگی کے دوران انڈین حکومت نے اس فیصلے کو ایمرجنسی حل اور قومی سلامتی کے لیے ضروری قدم بتایا تھا۔

انڈیا کے وزیر اطلاعات اور نشریات روی شنکر پرساد نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ‘یہ پابندی سکیورٹی، خود مختاری اور سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ ہم انڈین شہریوں کے ڈیٹا اور پرائیویسی میں کسی طرح کی جاسوسی نہیں چاہتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32470 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp