ایک کھوئی ہوئی کتاب


ان ہی راتوں میں، اچانک ہار سنگھار کا درخت پرسرار سفید پھولوں سے بھر جاتا ہے، یہ اندھیرا پڑتے ہی کھلتے ہیں اور رات کے آخری پہر جو ایک ایک کر کے گرنا شروع کرتے ہیں تو صبح تک ان درختوں کے نیچے، نارنجی ڈنڈی والے سفید پھولوں کی چادر بچھ چکی ہوتی ہے۔

ایسی راتوں میں مطالعے کے شوقین برآمدوں میں بتی جلا کے کتابیں پڑھا کرتے ہیں۔ وہ کتابیں جنھیں جانے کب کب اور کہاں کہاں سے خریدا تھا اور پڑھنے کی فرصت ہی نہ ملی۔ ایسی کتابیں، ان خوشبو سے لدی، آتی خزاں کی راتوں میں خود بخود سامنے آ جاتی ہیں۔

آج پرانی کتابوں میں سے ایک پتلی سی کتاب ‘The trial of Mussolini’ نکلی۔

کتاب بہت اچھی حالت میں ہے۔ شاید اسے بھی کسی نے خریدا اور پڑھا نہیں۔ یہ سوچ کے پہلا صفحہ کھولا تو کسی نے فاؤنٹین پین سے لکھ رکھا ہے۔ ’آپا کے لیے، سالگرہ مبارک از مظفر۔‘

نیچے 14 جون 1945 کی تاریخ درج ہے۔ کتاب سری نگر کے کسی ’رہس بک سیلرز‘ سے خریدی گئی ہے۔ کونے پر مٹی مٹی سی مہر بھی ہے۔

75 برس پہلے جانے کس مظفر نے اپنی آپا کے لیے یہ کتاب خریدی ہو گی۔ آپا یقیناً سیاسی شعور رکھتی ہوں گی۔ یہ کتاب کے پہلے چار ایڈیشنوں میں سے ہے۔ یعنی تحفہ دینے والے نے آپا کو اس وقت کی جدید ترین کتاب لے کے دی تھی۔

اتنے برس یہ کتاب کہاں رہی؟ سری نگر کے کسی مکان کی چوبی پرچھتی پر؟ کسی بک شیلف میں، بہت سی کتابوں کے درمیان، جنھیں کسی اکتوبر میں پڑھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر ڈل جھیل کے کسی خوبصورت بجرے میں سجے کتابوں کے کسی ننھے سے ریک پر اپنے پہلے قاری کی منتظر رہی ہو گی؟

ممکن ہے آپا اسے کسی ریستوران، کسی ہوٹل یا کسی انتظار گاہ میں بھول گئی ہوں اور وہاں برسوں کھوئے ہوئے سامان کے درمیان پڑی رہی ہو۔

یہ بھی تو ممکن ہے، مظفر یہ کتاب کبھی آپا کو دے ہی نہ سکے ہوں اور یہ ان کے پاس ہی پڑی رہی ہو۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ آپا نے کتاب عجلت میں کہیں رکھ دی ہو اور پھر انھیں مل ہی نہ پائی ہو۔ کتابیں گھر کے گھر بھی تو کھو جاتی ہیں۔

یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ کتاب ڈاک سے بھیجی گئی ہو اور اصل پتے پر نہ پہنچ پائی ہو؟ ہونے کو یہاں کیا نہیں ہو جاتا؟

آپا نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہو گی کیونکہ اس کے دو صفحات ابھی تک جڑے ہوئے ہیں۔ یہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کا تھا۔ ہندوستان میں بھی سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا۔ اس بھاگا دوڑی میں سری نگر کے ان بہن بھائی نے 14 جون کو جانے یہ سالگرہ بھی منائی ہو گی یا نہیں؟

75 برس تک غائب رہنے کے بعد یہ کتاب سری نگر سے لاہور کی پرانی کتابوں کی دکان تک کیسے پہنچی؟ آپا، مظفر، میں اور یہ کتاب، پچھتر برس کی دوری کے باوجود ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔

کتابوں، انسانوں اور شہروں کے درمیان عجیب نہ سمجھ میں آنے والا تعلق ہوتا ہے۔ ہر شخص ہر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ ہر شخص کو ہر کتاب مل بھی نہیں سکتی۔ ہر شہر کے اپنے ہی باسی ہوتے ہیں۔ جن کو وہ نہ بسانا چاہے، وہ چاہتے ہوئے بھی اس شہر میں نہیں بس سکتے۔ کتابیں بھی شہر ہوتی ہیں جنھیں وہی آباد کرتے ہیں جنھیں وہ چاہیں۔

یہ کتاب پہلی بار میں نے ہی پڑھنی تھی۔ کتاب اور قاری کے رشتے کے درمیان وقت بھی نہیں آ سکتا۔ ہر کتاب جب چھپتی ہے تو اس کا ایک خاص قاری ہوتا ہے اور کتاب اپنے اس خاص قاری تک پہنچ ہی جاتی ہے۔

ڈل جھیل کے کنارے واقع ایک منی سی کتابوں کی دکان سے خریدی یہ کتاب 75 برس بعد، لاہور کے اس برآمدے میں، ہار سنگھار اور مدھو مالتی کی بیل کے سائے میں مجھے پڑھنا تھی۔

آپا اور مظفر اگر کہیں ہیں اور حیات ہیں تو ان کا شکریہ اور اگر چل بسے ہیں تو بھی انھیں معلوم ہو کہ ان کا تحفہ قاری تک پہنچ چکا ہے۔ کتاب خریدنی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ کتاب اپنے قاری تک پہنچتی رہے اور کتابوں کے عشق کی یہ صدی آخری نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).