کیا مہنگائی پر قابو پایا جا سکے گا؟


پاکستان کی ریاست، حکومت اور معاشرے کے بڑے بڑے بحرانوں یا مختلف نوعیت کے مسائل میں ایک بڑا بنیادی مسئلہ، جو عمومی طور پر عام لوگوں کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے، وہ خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ہے۔ ہماری بڑی بڑی سیاسی بحثوں میں، عام لوگوں کے بنیادی مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں یا یہ حکمران طبقات کی بڑی ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست، جمہوریت اور عام فرد کے درمیان ایک بڑی سیاسی خلیج پائی جاتی ہے۔ اس وقت قومی سطح پر جو بحث عام آدمی سے جڑی ہوئی ہے، وہ مہنگائی کی ہے۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی کو اس حکمرانی کے نظام سے فوری طور پر کوئی بڑا ریلیف ملنے کی امید کم ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مسائل نہ صرف موجود ہیں بلکہ روزانہ کی بنیادوں پر ان میں شدت یا اضافہ ہو رہا ہے۔

عمران خان کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بڑے بڑے سیاسی دعوے، تبدیلی کے تناظر میں کیے تھے۔ ابتدا میں عمران حکومت کا بیانیہ یہی تھا کہ ہمیں اقتدار مشکل اور بحران کی حالت میں ملا ہے اور فوری ریلیف ممکن نہیں۔ اسی طرح زیادہ تر غلطیوں کو سابق حکمران طبقات سے جوڑا گیا تھا کہ ان کی غیر منصفانہ معاشی پالیسیوں کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتوں کے پاس کوئی ایسا بڑا جادوئی فارمولا نہیں ہوتا کہ وہ راتوں رات حالات کو تبدیل کر سکیں، اس لیے جو بڑے بڑے سیاسی دعوے، عمران حکومت نے کیے تھے، ان میں بھی جذباتیت کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ لیکن اب کیوں کہ اس حکومت کو دو برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے، تو یہ حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس لیے اب جب حکمران طبقہ محض سابق حکمرانوں پر الزامات لگا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حکمت عوام میں قبولیت حاصل نہیں کر پاتی۔

چینی، آٹا، ادویات، بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، کھانے پینے کی روزمرہ کی اشیا، علاج معالج سمیت بہت سے بنیادی مسائل پر عوام میں یقینی طور پر ایک بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ عوام کو حکمران طبقہ ریلیف دینے میں مسلسل نا کامی سے دو چار ہے۔ اگر چہ احساس پروگرام سمیت کچھ پروگراموں کی مدد سے عام یا کمزور طبقے کو معاشی ریلیف بھی دیا جا رہا ہے، لیکن مجموعی طور پر عوام واقعی بد ترین معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکمران طبقات ہوں یا حزب اختلاف کا سیاسی طبقہ، ان کے مسائل بھی عوام سے جڑے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان بڑے سیاست کے لوگوں کے مسائل بڑی نوعیت کے ہیں، جن میں ذاتیات، الزام تراشی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا حکومتوں کو گرانے یا حکومتوں کو اپنی سطح پر مضبوط بنانے کے منفی کھیل نمایاں ہیں۔

18 ویں ترمیم کے بعد جس فعال اور متحرک انداز میں صوبائی حکومتوں کو اپنی اپنی صوبائی سطح پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے، ذخیرہ اندوزی سمیت ملاوٹ کرنا یا نا جائز منافع کمانا یا جعلی اشیا کی فراہمی یا طے شدہ قیمتوں پر اشیا کی عدم فراہمی کو روکنا تھا، اس میں یہ عملاً نا کام نظر آتی ہیں۔ اب وفاق سے زیادہ صوبائی حکومتیں حکمرانی کے بحران کی براہ راست ذمہ دار ہیں۔ انہی صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو بھی مفلوج یا یرغمال بنایا ہوا ہے۔ صوبائی حکومتیں سارے بحران کا ملبہ وفاق پر ڈالتی ہیں جب کہ اصل ذمہ داری ان ہی صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔

اسی طرح مہنگائی کو قابو کرنے یا کم کرنے کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان جو موثر رابطہ کاری یا تعاون درکار ہے، اس کا بھی واضح فقدان نظر آتا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی سطح پر کوئی موثر نگرانی، جواب دہی اور شفافیت کا نظام نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ خود بیوروکریسی کا نظام بھی ہے جو عام آدمی کے مفاد سے زیادہ اپنے مفادات کے تحت کام کرتا ہے۔ خود سیاسی منتخب لوگ جو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہیں اپنے آپ کو اس نظام میں بے اختیار سمجھتے ہیں اور اس کای بڑی وجہ جہاں حکومتی پالیسی ہے وہیں وہ اس بحران کو بیوروکریسی کے نظام سے بھی جوڑتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی سطح ایسی پالیسیوں، فیصلوں یا عمل در آمد کے نظام سے جڑے معاملات جو براہ راست لوگوں کا معاشی استحصال کرتے ہیں کی جواب دہی کا کوئی موثر نظام نہیں۔ جن لوگوں نے ملک میں چینی اور آٹے کا بحران پیدا کیا وہ تا حال کسی بڑے احتساب کے شکنجے میں نہیں جکڑے جا سکے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات کھل کر تسلیم کرنا ہو گی کہ وجوہ جو بھی ہیں اور مہنگائی کا جو بھی جواز درست یا غلط ہے لوگ ان کی حکمرانی کے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کیوں کہ حکومت کا کام مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے اور لوگوں کو جب عمومی طور پر ریلیف ملتا ہے تو اسی سے حکومتوں کی ساکھ اور شفافیت قائم ہوتی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں عمران خان کی براۂ راست حکومت ہے۔ ان دونوں صوبوں میں کچھ نہ ہونا یا بہتری نظر نہ آنا، ان کی اپنی جماعت اور صوبائی حکومت کی نا کامی سے جڑا سوال ہے اور اس کا رد عمل عوام میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔

حکمران طبقے کو یہ سمجھنا ہو گا کہ محض بڑے بڑے سیاسی نعروں، تقریروں یا جذباتیت پر مبنی گفتگو سے عام آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اس کو ہر صورت میں معاشی ریلیف درکار ہوتا ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اور معاشی بد حالی کی کیفیت ہے تو ایسے میں کمزور اور غریب یا بد حال لوگ کہاں جائیں۔ نئے لوگوں کو روزگار دینا تو دور کی بات پہلے سے موجود روزگار لوگوں کو جس برے طریقے سے بے روزگاری کا سامنا ہے، وہ بھی سنگین بحران کی نشان دہی کرتا ہے۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلی ایسی ٹھوس حکمت عملیاں، قانون سازی یا پالیسی سازی سمیت عمل در آمد کے نظام میں کوئی بڑی بنیادی تبدیلی نہیں کر سکے، جو عام لوگوں کی حالت کو بدل سکے۔ وزیر اعظم کو سمجھنا ہو گا کہ مہنگائی کے جن کا علاج کسی روایتی اور فرسودہ پالیسی یا حکمت عملی سے ممکن نہیں۔ اس وقت جو مہنگائی کی غیر معمولی صورت احوال ہے اس میں واقعی غیر معمولی، کڑوے اور سخت گیر اقدامات کرنا ہوں گے۔

اصولی طور پر مہنگائی کے خاتمے کے لیے ایک بڑی ”ایمرجنسی“ کو نافذ کرنا ہو گا۔ یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت میں موجود تمام فریقین یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتیں یا انتظامیہ مل بیٹھ کر کچھ علاج تلاش نہ کریں۔ وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تشویش اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور فوری طور پر چاروں صوبائی وزرائے اعلی سمیت مہنگائی سے جڑی وزارتوں اور بیوروکریٹس کو بلا کر ایک ہنگامی حکمت عملی یا پالیسی اختیار کریں۔ اس طرز کے اجلاس کو اس ہنگامی صورت احوال کے پیش نظر ماہانہ یا دو ماہ کی بنیاد پر بلایا جائے اور خود وزیر اعظم اس اجلاس کی صدارت کریں اور جواب طلبی بھی کریں، تا کہ یہ احساس پیدا ہو کہ یہ مسئلہ حکومتی ترجیحات کا حصہ ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو جواب دہی کا حصہ بنانا ہو گا، کہ وہ اس بحران کے حل میں کیا کچھ کر رہے ہیں اور کیا ٹھوس اقدامات ان کے پاس ہیں، یا کیا کچھ ان کو وفاق سے درکار ہے۔ تبھی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).