گورنر کے اغوا کا منصوبہ یا امریکا میں خانہ جنگی کی تیاری


امریکا کی ریاست مشی گن کی خاتون گورنر ویٹمر کو اغوا کرنے کا منصوبہ پکڑا گیا۔ یہ منصوبہ ایک سفید فام انتہا پسند گروہ نے تیار کیا تھا۔ یہ گروہ سفید فام لوگوں کی نسلی برتری پر یقین کامل رکھتا ہے اور جو کوئی ان کے نظریات سے اختلاف کرے، اسے امریکا کا غدار سمجھتا ہے۔ ان کا منصوبہ صرف یہ نہیں تھا کہ گورنر ویٹمر کو اغوا کیا جائے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ گورنر کو اغوا کر کے ان پر غداری کا مقدمہ چلائیں گے۔ یعنی وہ بیک وقت مدعی وکیل اور منصف کا کردار ادا کریں گے۔

دوسرے الفاظ میں غدار سازی کی صنعت، صرف پاکستان میں فروغ نہیں پا رہی۔ امریکا بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں بہت سے بے کار احباب، گھر بیٹھ کر دوسروں کو غدار اور وطن دشمن قرار دے کر، اپنے لئے ذریعہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔ اس منصوبے کے بارے میں تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آتی رہیں گی، لیکن ظاہر ہے کہ یہ سوال تو اٹھے گا کہ خاتون ہونے کے علاوہ گورنر ویٹمر نے کیا جرم کیا تھا، جو سفید فام انتہا پسندوں نے انہیں نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

گورنر ویٹمر کا ایک بڑا جرم تو یہ تھا کہ جب ان کی ریاست میں کرونا کی وبا عروج پر تھی، تو انہوں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں رہیں، تا کہ وبا کی شدت میں کمی آئے۔ مشی گن کی ریاست میں خاص طور پر کئی انتہا پسندوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا اور اپریل میں ہزاروں کے جلوس نے ریاست کے مرکزی دفاتر کا محاصرہ کر لیا تھا۔ ان میں سے کئی مظاہرین مسلح بھی تھے۔ عقل مندوں کا یہ مجمع، یہ نعرے لگا رہا تھا کہ گورنر کو گرفتار کیا جائے۔ دہشت گردی کے اس منصوبے میں شامل افراد کو یہ بھی شکایت تھی کہ مشی گن کا قانون ایسا ہے کہ اس میں نئے ورزشی مراکز کھولنے کے راستے میں کئی قوانین حائل ہیں۔

گورنر ویٹمر کے اغوا کا یہ منصوبہ، کامیاب بھی ہو سکتا تھا۔ مگر خوش قسمتی سے ایف بی آئی کو بروقت اس منصوبے کی بھنک پڑ گئی۔ اور انہوں نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے فوری کار کردگی دکھانے کی بجائے اس گروہ میں شامل ایک فرد کی خدمات خرید کر، اس سے جاسوسی کرانا شروع کی اور اس سازش میں شریک زیادہ سے زیادہ لوگوں کا سراغ لگایا۔

اس سازش میں شامل، سب سے نمایاں افراد کے نام فاکس، کرافٹ، گاربن اور فرینکس تھے۔ ان کی قیادت میں یہ گروہ امریکا میں دوسرے گروہوں سے رابطے کر رہا تھا، تا کہ امریکا کی مختلف ریاستوں کی حکومتوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا سکیں۔ ان کا موقف تھا کہ ان ریاستوں کی حکومتیں امریکا کے آئین سے بغاوت کی مرتکب ہو رہی تھیں۔

چناں چہ 6 جون کو امریکا کی مختلف ریاستوں سے نمائندوں نے اوہایو میں جمع ہو کر، صورت احوال پر غور کرنا شروع کیا اور مختلف لیڈروں کے قتل اور اغوا کی تجاویز بھی زیر غور آئیں۔ یہ گروہ پہلے سے پولیس افسران کے گھروں کے جائزے لے رہا تھا، تا کہ وقت آنے پر انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔

یہ منصوبے صرف زبانی کلامی بحثوں تک محدود نہیں تھے۔ اس قسم کے گروہ امریکا میں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپوں کا انعقاد بھی کر رہے تھے۔ ان گروہوں کے نمایاں افراد کا خیال تھا کہ انہیں مزید ارکان کی ضرورت ہے اور ان کے حصول کے لئے انہیں کوئی بڑا کارنامہ کرنا ہو گا۔

چناں چہ اس سازش میں شامل افراد کے ایک لیڈر فاکس نے ایک مرحلے پر اس بات کا اظہار کیا کہ انہیں دو سو دہشت گردوں کی ضرورت ہے، تا کہ مشی گن ریاست کے صدر مقام پر حملہ کر کے، گورنر سمیت ریاست کے بہت سے عہدے داروں اور سیاستدانوں کو اغوا کر کے یرغمال بنا لیا جائے، اور پھر گورنر ویٹمر پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے۔

آخر کار ان دہشت گردوں نے اپنی کارروائی کے لئے اس قیام گاہ کا انتخاب کیا، جہاں گورنر ویٹمر اپنی رخصت گزارتی ہیں۔ اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس منصوبے میں ایک پلمبر، الیکٹریشن اور انجنیئر کا تعاون حاصل کیا جائے۔ اور گورنر کی اس قیام گاہ کے گرد و نواح کا تفصیلی جائزہ لینے کا کام شروع کر دیا گیا۔

مختلف اجلاس میں اس گروہ کے لیڈر فاکس دوسرے شرکا کو یہ کہہ کر بھڑکاتے رہے کہ مشی گن کے گورنر کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہو گئے ہیں۔ اور ان کے اختیارات کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظر آ رہا ہے کہ کئی اور ریاستوں میں لوگ اپنی جابر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

13 ستمبر کو اس گروہ نے ایک اور اجلاس منعقد کر کے دھماکا خیز مواد خریدنے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اکتوبر میں اس حملے کے لئے ایک مشق کی جائے گی اور نومبر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ہی گورنر کو اغوا کر لیا جائے گا۔ دہشت گردی کا یہ منصوبہ آخری مراحل میں تھا، کہ ایف بی آئی نے اس گروہ کے افراد کو گرفتار کر لیا۔

مشی گن کی اٹارنی جنرل نے بجا طور پر بیان دیا کہ یہ صرف گورنر کو اغوا کرنے کا منصوبہ نہیں تھا، بلکہ بے امنی پیدا کرنے اور لوگوں کو خانہ جنگی پر اکسانے کا منصوبہ تھا۔ گورنر ویٹمر نے بیان دیا کہ گورنر بنتے ہوئے انہیں یہ احساس تو تھا کہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن یہ اندازہ نہیں تھا معاملات اس انتہا تک پہنچ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کے بیانات نے ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ اس قسم کے خیالات پنپنے شروع ہو گئے ہیں۔

ساری دنیا کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ گو کہ ماضی قریب میں پاکستان اور بعض مسلمان ممالک انتہا پسندی کے عارضے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، لیکن انتہا پسندی ایسی بیماری نہیں ہے، جو صرف پاکستان یا دیگر مسلمان ممالک تک محدود ہو۔ گزشتہ چند سال میں بھارت جس راستے پر چل پڑا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ حالات یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں کرونا کی طرح یہ وبا بھارت کی جان نہیں چھوڑے گی۔

امریکا میں یہ منصوبہ تو نا کام بنا دیا گیا، لیکن وہاں سفید فام انتہا پسندی کا عارضہ بڑھ رہا ہے۔ اگر صدر ٹرمپ الیکشن ہار بھی گئے، تو بھی سفید فام انتہا پسندی کی مقبولیت کم نہیں ہو گی۔ اسی طرح مغربی ممالک کے ایک طبقے میں مسلمانوں سے نفرت روز بروز شدید ہوتی جا رہی ہے۔

آج ایک منصوبہ ناکام ہو گیا ہے، تو کل اس جیسا دوسرا منصوبہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا گروہ کسی ملک میں عسکری یا جوہری نوعیت کے مرکز پر قبضہ کر کے بین الاقوامی خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ اب تک سامنے آنے والے شواہد یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے گروہ امریکا کی مختلف ریاستوں میں سرگرم ہو چکے ہیں۔

یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ گو کہ مختلف ممالک میں ان چہروں نے مختلف نقاب اوڑھ رکھے ہیں لیکن پس پردہ ایک ہی چہرہ ہے۔ یہ گروہ لوگوں کو کبھی یہ یقین دلاتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے، کبھی یہ راگ سناتے ہیں کہ تمہارا ملک یا تمہاری تہذیب کو خطرہ ہے۔ کبھی یہ پٹی پڑھاتے ہیں، تم دنیا کی سب سے برتر قوم ہو اور انسانیت کا بھلا اس میں ہے کہ تم دنیا کو اپنا محکوم بنا لو۔ ان مختلف نقابوں کے پیچھے ایک ہی چہرہ ہے اور وہ عدم برداشت اور لا شعور میں پوشیدہ احساس کمتری کا چہرہ ہے۔ ان کو ایک مریض سمجھ کر ان کا علاج کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).