الجزائر کی چوری شدہ توپ اور فرانس کے ’کوکِرل‘ کی کہانی


توپ
16ویں صدی میں الجزائر کے عثمانی حکمران حسن پاشا نے شہر کو بار بار ہسپانوی، فرانسیسی اور ڈچ حملوں سے بچانے کے لیے یہ توپ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔
الجزائر کے لوگ امید کر رہے ہیں کہ نوآبادیاتی ماضی کی غلطیاں دور کرنے کی کوششوں کے تحت تقریباً دو صدیاں قبل فرانس نے اُن کی کانسی کی جو توپ چوری کی تھی وہ شاید اب انھیں واپس مل جائے۔

صدیوں تک الجزائر کی محافظ سمجھے جانے والی اس توپ کو سنہ 1542 میں تیار کیا گیا تھا۔ اس توپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج کے معیار کے حساب سے بھی یہ ایک ’بہت بڑا ہتھیار‘ ہے۔

الجزائر میں اسے ’بابا مرزوگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ’بابرکت باپ۔‘ یہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس توپ نے صدیوں پہلے کئی برسوں تک الجزائر کے دارالحکومت کو لاتعداد بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھا تھا۔

اس توپ کا وزن 12 ٹن ہے اور اس کی سات میٹر (یعنی 22 فٹ) لمبی بیرل بحیرہ روم کی جانب مڑی ہوئی تھی جہاں سے وہ حملہ آور جہازوں پر پانچ کلومیٹر (تین میل) کے فاصلے تک گولہ باری کر سکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ملکہ برطانیہ باربیڈوس کی سربراہ مملکت نہیں رہیں گی

جب قبائلی جنگجوؤں نے کشمیر پر دھاوا بولا

کوہ نور ہیرا اور اس سے جڑے چھ افسانے

توپ

سنہ 1683 میں اس وقت کے فرانسیسی قونصل ژان ویچر کو توپ میں پھینک کر فضا میں داغ دیا گیا تھا

درحقیقت سنہ 1683 میں اس وقت کے فرانسیسی قونصل ژان ویچر کو توپ میں پھینک دیا گیا اور فرانسیسی بحریہ کی جانب سے شہر پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کے دوران انھیں توپ کے دھانے سے باندھ کر دور پھینکا گیا تھا۔

اس مشہور واقعے کے بعد سے لے کر آج تک فرانسیسی فوجی افسران اس ہتھیار کو ’لا کنسلیئر‘ کہتے ہیں۔

جب سنہ 1830 میں تیسری کوشش کے بعد فرانسیسیوں نے بلآخر اس شہر پر قبضہ کر لیا تو انھوں نے اس توپ کو ایسی جگہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا جہاں سے یہ انھیں نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔

آج شمال مغربی فرانسیسی بندرگاہ بریسٹ میں بحریہ کے ایک اڈے پر نصب اس توپ کا رخ آسمان کی جانب ہے۔

اس توپ کا دھانہ بند کر دیا گیا تھا اور اس کے اوپر فرانسیسی قوم کا ایک نشان، کوکریل (نوجوان مرغا) نصب کیا گیا تھا۔

تاہم دہائیوں بعد بھی الجزائر کے عوام کے لیے اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ ہتھیار دونوں ممالک کے مابین تعلقات بحال کرنے کی علامت کے طور پر الجزائر کو واپس کیا جائے۔

جنگجوؤں کی باقیات لوٹائی گئی ہیں

سات سال کی خوں ریز جنگ کے بعد الجزائر نے سنہ 1962 میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے تاہم جب سے ایمانوئل میکرون فرانس کے صدر بنے ہیں، تب سے اس میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے۔

فرانس

فرانس نے ان 24 جنگجوؤں کی باقیات واپس کر دیں جو 19ویں صدی میں نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے دوران مارے گئے تھے

سنہ 2017 میں انتخاب سے چند ماہ قبل، الجزائر کے دورے کے موقع پر انھوں نے اس شمالی افریقی ملک میں نوآبادیاتی نظام کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا تھا۔

اور رواں برس کے اوائل میں فرانس نے الجزائر کے ان 24 جنگجوؤں کی باقیات واپس کر دی تھیں جو 19 ویں صدی میں فرانسیسی نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے دوران مارے گئے تھے۔

ان باقیات کو ٹرافی کے طور پر فرانس لے جایا گیا تھا اور ان میں سے کچھ کھوپڑیوں کو بعد میں پیرس کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

تاریخ دان بیلکسیم باباسی وہ شخص تھے جنھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ الجزائر کے باشندے اس توپ کے بارے میں بھول نہ جائیں۔

انھوں نے اس معاملے پر سنہ 1990 کی دہائی سے مہم چلائی تھی لیکن افسوس کہ وہ اس توپ کی واپسی نہ دیکھ پائیں گے، کیونکہ وہ گذشتہ سال فوت ہو چکے ہیں۔

انھوں نے الجزائر کے اخبار الموجودہ کو بتایا تھا کہ یہ توپ ان کے لیے اتنی خاص کیوں ہے۔

ان کا کہنا تھا ‘12 سال کی عمر میں میرے نانا مجھے ایک عظیم توپ کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ ان کہانیوں نے مجھے تحقیق اور تاریخ کا مطالعہ کرنے کی جانب راغب کیا۔‘

اپنے دورے کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ‘جب میں نے اس توپ کو چھوا تو اپنے ہاتھوں پر نمی محسوس کی۔ میرا خیال ہے وہ میرے آنسو تھے۔‘

‘بابا مرزوگ ہمیں اس دور میں واپس لے جاتی ہے جب الجزائر بحیرہ روم میں غلبہ حاصل کر رہا تھا۔ یہ توپ الجزائر کی اصل تاریخ کی کہانی سناتی ہے۔‘

ایک دن تم آزاد ہو جاؤ گی

16ویں صدی میں الجزائر کے عثمانی حکمران حسن پاشا نے شہر کو بار بار ہسپانوی، فرانسیسی اور ڈچ حملوں سے بچانے کے لیے یہ توپ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔

توپ

تاریخ دان بیلکسیم باباسی وہ شخص تھے جنھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ الجزائر کے باشندے اس توپ کے بارے میں بھول نہ جائیں

موجودہ دور کے ایک بیلسٹک میزائل جیسی اس توپ کو الجزائر کے نواحی علاقے باب ال اوئیڈ کی ایک فیکٹری میں تیار کیا گیا تھا۔

باباسی کی کاوشوں کی بدولت موجودہ ثقافت میں توپ بہت مقبول ہے۔

سنہ 2008 میں احمد بوزیان نے اس توپ کی یاد میں ایک مشہور نظم ‘اجنبی، گھر سے دور‘ لکھی تھی، جس میں کہا گیا ہے ‘میں یہاں فرانسیسیوں کے ہاتھوں اسیر اپنے مقدر کا انتظار کر رہی ہوں۔‘

آج بھی مشہور روایتی گلوکار عبدلکادر چیچم بابا مرزوگ کے ساتھ ہوئی اپنی پرانی گفتگو کا تصور کرتے ہوئے اپنے فن کا مظاہرہ کچھ یوں کرتے ہیں:

’میں نے انھیں بتایا میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے گھر سے دور اسیری میں رکھا گیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ توپ گھر واپس آئے۔’ میں نے ان سے کہا: ‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگتا ہے، ایک دن یہ توپ آزاد ہو گی۔‘

تعلقات کی بحالی کا اشارہ

باباکی نے اپنی مہم کے دوران متعدد مواقع پر الجزائر اور فرانسیسی عہدیداروں کو خطوط لکھے۔

فرانس اور الجزائر کے تعلقات پر ایک نظر:

  • 1830: فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا
  • 1945: سیفٹ میں آزادی کے حامی افراد کے مظاہرے۔ بدامنی کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے
  • 1954-1962: الجزائر کی آزادی کی جنگ، ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار لاکھ سے 10 لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے
  • 1962: الجزائر ایک آزاد ریاست بن گیا
  • 2012: فرانسیسی صدر فرانسواس اولاند نے الجزائر میں فرانسیسی نوآبادیات کے باعث ہونے والے تکالیف کا اعتراف کیا لیکن معافی نہیں مانگی
  • 2017: فرانسیسی صدارتی امیدوار ایمانوئل میکرون نے الجزائر کے دورے پر نوآبادیات کو ‘انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا
  • 2018: صدر کی حیثیت سے میکرون کا کہنا تھا کہ فرانس، سنہ1957 میں الجزائر میں ایک کمیونسٹ کارکن پر تشدد اور ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے
  • 2020: فرانس نے ان 24 جنگجوؤں کی باقیات واپس کردیں جو 19ویں صدی میں نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے دوران مارے گئے تھے

حتیٰ کہ باباکی نے یہاں تک کہا کہ انھیں سنہ 1995 سے سنہ 2007 تک فرانس کے صدر رہنے والے جیک چیراک کی جانب سے بھی مثبت ردعمل ملا ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی کئی برسوں تک فرانسیسی فوج کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

سنہ 2006 میں فرانس کے اس وقت کے وزیر دفاع مشی الیئل میری نے توپ واپس کرنے کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے اسے ‘فرانسیسی فوج کے ورثہ‘ کا حصہ قرار دیا۔

آرٹ

گذشتہ مہینے اس بات چیت کے شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد، فرانسیسی اراکین پارلیمنٹ نے 1830 میں فرانسیسی یلغار کے خلاف جدوجہد کرنے والے شخص، امیر عبدلقادر کا پہنا گیا ایک سفید لباس، الجزائر کو واپس کرنے پر تبادلہ خیال کیا

لیکن اب ایسے ہی معاملات کو حل کرنے کے لیے الجزائر آرکائیوز کے نیشنل سینٹر کے سربراہ عبدلمدجید چیخی اور الجزائر کی جنگ آزادی کے ماہر فرانسیسی مورخ بینجمن سٹورا کی قیادت میں دو طرفہ بات چیت کی جا رہی ہے۔

گذشتہ مہینے اس بات چیت کے شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد، فرانسیسی اراکین پارلیمنٹ نے سنہ 1830 میں فرانسیسی یلغار کے خلاف جدوجہد کرنے والے شخص، امیر عبدلقادر کا پہنا گیا ایک سفید لباس، الجزائر کو واپس کرنے پر تبادلہ خیال کیا۔

یہ ایک عربی چغہ ہے جو انھوں نے سنہ 1847 میں ہتھیار ڈالنے کے بعد پہنا تھا، اس کے بعد انھیں پانچ سال تک اسیر رکھا گیا تھا اور اس وقت یہ چغہ پیرس کے آرمی میوزیم میں ہے۔

یہ ساری پیش رفت فرانس اور الجزائر کے مابین تعلقات کی بحالی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ شاید اس سے 190 سال بعد الجزائر کے جنگی قیدی، بابا مرزوگ کو آزاد کروانے کا راستہ مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp