افغان امن: وہم اور حقیقت


طالبان اور افغان حکومت کے مابین بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوئے ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے حتمی مقصد کی طرف بہت کم پیشرفت ہوئی ہے۔

فریقین ابھی تک تکنیکی امور سلجھانے میں مصروف ہیں، جن میں بات چیت کے لئے بنیادی اصول طے کرنا، متنازع نکات پر اختلافات حل کرنے کا ایک فریم ورک تشکیل دینا نیز مذاکرات کا ایجنڈا طے کرنا شامل ہیں۔ مجموعی طور پر، مفروضات اور خوش فہمیوں کے غبار نے ان بدصورت زمینی حقائق پر پردہ ڈال رکھا ہے جن کی پرچھائیں افغانستان کے مستقبل پر لرز رہی ہے۔

اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ طالبان دوحہ معاہدے کو مذاکرات کی بنیاد بنانے کے خواہشمند ہیں کیونکہ اس معاہدے میں طالبان کو دل کھول کر رعایتیں دیتے ہوئے افغان ریاست کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں نہ تو شورش پسندوں سے تشدد اور دہشت گردی سے دستبردار ہونے کا تقاضا کیا گیا اور نہ ہی اس معاہدے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے مابین کسی معاہدے میں منطقی طور پر ناگزیر فریق یعنی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری طرف، اسلامی جمہوریہ افغانستان کا حکومتی وفد، حالیہ گرینڈ لویہ جرگہ کی طرف سے کابل میں منظور شدہ فریم ورک اور قیام امن کے بارے میں امریکی اور افغان حکومت کے مشترکہ بیان کا حوالہ دے رہا ہے۔

طالبان کی طرف سے مستقل جنگ بندی کے اعلان یا تشدد میں کمی کے حوالے سے عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ اختلافات اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ، افغان مفاہمت کے لئے واشنگٹن کے مندوب زلمے خلیل زاد نے پیش گوئی کی تھی کہ کابل کے ساتھ سیاسی معاہدے تک پہنچنے سے قبل طالبان مستقل جنگ بندی کو قبول نہیں کریں گے۔ قبل ازیں انہوں نے بیان دیا تھا کہ دوحہ معاہدہ پرتشدد کارروائیوں میں کمی کا تقاضا کرتا ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ اگر تشدد کے واقعات قابو سے باہر ہو گئے تو امن مذاکرات کا پورا عمل شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گا۔

اس تناظر میں، ستمبر کے آخری ہفتے میں افغان کونسل برائے قومی مفاہمت کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کا اسلام آباد کا دورہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اسلام آباد میں ہونے والی گفت و شنید کے مقابلے میں دوحہ مذاکرات عملی طور پر محض ایک ذیلی سرگرمی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ طالبان افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کی قیادت پاکستان میں مقیم ہے۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ تردید کے رسمی اعلانات اور اصلاح احوال کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود پاکستان میں سلامتی کے اداروں نے کا افغانستان کے لئے اپنا ایک ”آگے بڑھنے کا راستہ“ طے کر رکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں طالبان کے اصل رفقا دوحہ کی بجائے اسلام آباد میں بین الافغان مذاکرات کی میزبانی کرنا پسند کرتے۔ تاہم کچھ اعلیٰ سول حکام نے بالآخر عسکری قیادت کو منا لیا کہ ایسا کرنے سے افغانستان پر ’میڈ ان پاکستان‘ حل مسلط کرنے کی کوشش کا تاثر پیدا ہو گا۔ اس سے 1992 میں آئی ایس آئی کی ان ناکام کوششوں کی ناخوشگوار یادیں تازہ ہونے کا بھی اندیشہ تھا جب مجاہدین گروپوں کے ذریعہ کابل میں حکومت سازی کے لئے ہاتھ پاؤں مارے گئے تھے۔

پاکستان نے پہلے اپنی سرزمین پر موجود طالبان کی پناہ گاہوں کے وجود سے انکار کیا، پھر طالبان کی موجودگی کا اقرار کیا اور پھر طالبان کو واشنگٹن اور کابل کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنے کا کریڈٹ لیتے ہوئے ایک امن پسند فریق ہونے کا روپ اختیار کیا۔ یہ ایک طویل سفر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ معاہدے میں پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ امریکی اور افغان سیاسی اور فوجی رہنما برس ہا برس سے ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کا شد و مد سے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

افغان منظر کی اس کایا کلپ کی ایک بڑی وجہ طالبان کے تئیں امریکی پالیسی میں میں بنیادی تبدیلی آنا بھی ہے۔ واشنگٹن نے نائن الیون کے فوراً بعد طالبان کو دہشت گرد نیز نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کرنے والی تنظیم القاعدہ کا ذیلی دھڑا قرار دیتے ہوئے طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ تقریباً دو دہائیوں کی لڑائی کے بعد، امریکی موقف مین قطبی تبدیلی آئی ہے۔ مختصر مدتی تناظر میں امریکہ کی طرف سے طالبان کی آؤ بھگت کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی مفادات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ختم کر کے خارجہ پالیسی میں کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتی ہے۔

تاہم، طویل مدتی تناظر میں، طالبان کے بارے میں نیا امریکی موقف چین کے ساتھ مغرب کی نئی سرد جنگ کا ایک حصہ ہے جسے امریکہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اگر پاکستان طالبان کی طرف سے امریکہ مخالف عزائم کو ترک کرنے کے اعلان میں ضامن بن سکے تو امریکہ طالبان کو بیجنگ کے خلاف نئی بین الاقوامی صف بندی میں ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر اپنا سکتا ہے۔ ایسا اس لئے بھی قابل فہم ہے کہ واشنگٹن نے کبھی القاعدہ اور چند دیگر گروہوں کے برعکس طالبان کو امریکی سرزمین کی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ نہیں سمجھا۔ واشنگٹن نے طالبان کو ایک علاقائی مسئلہ کے طور پر دیکھا جس سے چین، روس، ایران اور ہندوستان کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس صورت میں امریکہ طالبان کو مکمل طور پر ختم کرنا کیوں چاہے گا؟

اس سے پاکستانی مقتدرہ کے لئے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے کے نئے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ راولپنڈی میں عسکری قیادت کا خیال ہے کہ وہ افغانستان میں تصفیہ کرا کے اپنے مفادات محفوظ کر سکتے ہیں۔ ان کے نزدیک، افغان ریاست میں طالبان کو جگہ دینے کے لئے واشنگٹن کی بے تابی ایک نعمت ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس سے افغان ریاست اور معاشرے کے مذہبی تشخص کو تقویت ملے گی۔ یعنی ہمسایہ ملک ایران میں شیعہ ملائیت کے مقابلے میں سنی ملائیت کھڑی کی جا سکے گی۔ پاکستان میں 36000 ہزار مذہبی مدارس میں سے بہت سے مدرسے افغانستان میں اپنی شاخیں قائم کر سکیں گے۔ لڑکیوں کے لئے علیحدہ مذہبی مدارس بھی اس منظر کا حصہ ہوں گے۔ اس سے افغانستان میں طالبانائزیشن کو تقویت ملے گی۔

طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کے علاوہ، پاکستان کی عسکری قیادت کے سابق افغان مجاہدین رہنماؤں کے ساتھ بھی پرانے اور گہرے رابطے موجود ہیں۔ طالبان اور کچھ سابق مجاہدین رہنماؤں نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان کے ہمارے ملک میں وسیع معاشی مفادات ہیں۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں پاکستانی حکام عام افغان مہاجرین کے ساتھ خاصی سختی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن انہوں نے افغان اشرافیہ کے کچھ حصوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری اور بڑی بڑی جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ سب اثاثے مل کر ”قابل قبول“ اتحاد کی تشکیل میں مددگار ہوں گے۔ طالبان کے پاکستانی ہینڈلرز کو شمالی افغانستان کے کسی سیاستدان سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ طالبان کی بالادستی میں کام کرنے پر تیار ہوں۔ افغانستان میں قومی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے پشتون رہنماؤں کا بندوبست کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تاہم، قوم پرست افغان رہنماؤں کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان اپنی پالیسی میں طالبان کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف ”نمائندہ پشتون قیادت“ کے طور پر پیش کرتا رہے گا۔

افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کے متوازی سابق فاٹا کے اضلاع میں طالبان کی دوبارہ جتھہ بندی اس پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان کے پاس افغان رہنماؤں کی ایک ”بلیک لسٹ“ بھی ہے جسے اقتدار میں آنے سے روکنا مقصود ہے۔ قومی مفادات کے لئے سرگرمی سے کھڑا ہونے والا ہر رہنما اس فہرست میں شامل ہے۔ اسلام آباد انہیں مستقبل کی افغان حکومتوں سے دور کرنے کے لئے ”بھارت نواز“ کا نام دینا چاہتا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں پولیٹیکل انجینئرنگ اور جوڑ توڑ کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ اس صلاحیت کا کچھ حصہ افغان اقتدار کے کھیل میں بھی استعمال کریں گی۔

پاکستانی میں افغان پالیسی کے کرتا دھرتا عناصر نے افغانستان میں حتمی بازی کے لئے تمام پتے جمع کر رکھے ہیں۔ وہ تجارتی راہداری، ویزا اور بارڈر مینجمنٹ سے لے کر داعش کے خلاف لڑائی تک تمام حقیقی اور مفروضہ معاملات کو سودے بازی کے لئے استعمال کریں گے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ افغان فریقین کے درمیان مستقل جنگ بندی کے سوال پر متوقع تعطل کو توڑنے کے لئے کمر باندھ رہے ہیں تاکہ طالبان کی افغان اسلامی جمہوریہ میں شمولیت کے بارے میں ہچکچاہٹ پر قابو پایا جا سکے۔

پاکستانی پالیسی ساز ممکنہ طور پر کسی مذہبی فتوے کی مدد سے نچلی سطح کے لڑاکا طالبان کو جنگ بندی کر کے افغان حکومت میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پاکستان کی عسکری قیادت کو طالبان کے توسط سے افغانستان میں مستقل کردار اور اثر و رسوخ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ 1980 کی دہائی میں سامنے آنے والے اسٹریٹجک گہرائی کے تصور کا ایک ’نرم‘ ورژن ہو گا۔

اسلام آباد اس وقت معاشی بدحالی اور داخلی سیاسی انتشار سے دوچار ہے لیکن پاکستانی مقتدرہ موجودہ افغان منظر کو خطے میں بالخصوص وسط ایشیا میں اپنی طاقت کے اظہار کا نادر موقع سمجھتی ہے۔ اس سے پاکستانی عسکری قیادت کو نہ صرف اقتدار کی داخلی کشمکش میں قوت مہیا ہو گی بلکہ بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بھی فوائد مل سکیں گے۔

بظاہر یہ منصوبہ متاثر کن ہو سکتا ہے لیکن افغانوں کو سادہ لوح سمجھنا حماقت ہو گی۔ افغان دھوکہ دہی کا شبہ ہونے پر غنیم کو چکمہ دینے کی حیران کن صلاحیت رکھتے ہیں۔ سوویت افواج کے انخلا کے بعد مارچ 1989 کا جلال آباد حملہ یاد کیجئے۔ اس لڑائی میں سرد جنگ کے ”فاتحین“ کو شدید سبکی اٹھانا پڑی تھی۔ 1990 کی دہائی میں بیرونی عناصر کی مدد سے افغان سیاست کی مائکرو مینجمنٹ بری طرح ناکام ہوئی اور اس ناکامی سے خطے اور دنیا کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ افغانستان میں نوجوان آبادی کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دیہات کے مقابلے میں شہروں کے پھیلتے ہوئے تناسب کے باعث کوئی خارجی حل مسلط کرنا آسان نہیں ہو گا۔

افغان مسئلے کے تمام فریقوں، خصوصاً امریکہ اور پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنا ہو گا۔ مفاہمت اور صلح کے ایک منصفانہ بندوبست کے ذریعے جملہ فریقوں کے مفادات کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں گی لیکن اس سے کوئی خاص مسئلہ کھڑا نہیں ہو گا بشرطیکہ ”کھیل کے اصول“ طے کر لئے جائیں۔ ایسے اصول و ضوابط پر اتفاق کے لئے افغانستان کے آئین پر مبنی افغان ریاستی نظام کو مضبوط بنانا ہو گا اور اس ہدف ہی کو تمام تر کاوشوں کا مرکز بننا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).