مجھے الفاظ سے شکوہ ہے


جستجو اور جاننے کی خواہش انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ انسان کی تہذیب کا تمام تر سفر اسی نا معلوم سے معلوم کی طرف جستجو کا سفر ہے۔ اس سفر کو آگے طول دیتے ہوئے چند مشہور زمانہ الفاظ کا ذکر کرتے ہیں، جن میں لفظ ”لعنت“، ”زندہ باد“ اور ”مردہ باد“ زیادہ تر زیر بحث آتے ہیں۔ یونہی دیکھ لیا جائے تو ان مذکور الفاظ کا روز بروز استعمال سے کوئی بھی دریغ نہیں کرتا۔

یہاں پر یہ سوال زیر بحث آتا ہے کہ یہ الفاظ اتنے موثر بھی ہیں یا صرف ہم نے باہمی دل چسپی کی بنا پر ان کو فوقیت دی ہے۔ روزمرہ زندگی میں ان الفاظ کے ادا کرنے کے بعد کسی کی اچھائی یا برائی اور ساتھ میں کسی سے بھی مصلحت کے تمام راستے بند ہوتے ہیں، تو یہاں عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ یہ الفاظ معاشرے میں نفرت کو فروغ تو نہیں دیتے؟

ہم ان الفاظ کو پرکھنے پر آ جائیں، تو لفظ ”لعنت“ در اصل میں بے بسی، لا علمی، نادانی اور مایوسی کا بد ترین اظہار ہے اور ٹھیک اسی طرح زندہ باد اور مردہ باد دو نعرے نہیں بلکہ اس بیمار معاشرے کی اس عمومی سوچ کا پرچار ہیں، جو ہر وقت نظریات، عقائد اور مذاہب کو بنیاد بنا کر فقط انسان کے گلا گھونٹنے کا کام انجام دیتا ہے اور مختصراً یہ نعرے اور الفاظ انسان کی بے بسی، نا چاری اور لا جواب ہونے کا آخری حربے ہیں۔ مثلاً: اگر کوئی زندہ باد ہے تو وہ کیوں ہے؟ محض اسی بنا پر، جو اس کی صفات ہیں یا صرف عام آدمی کے ذہنی تسکین اور سکون کے لئے؟ الفاظ محض ذہنی سکون کے لئے ہیں، تو اہل فکر کے لئے ان الفاظ کی وجود کی حیثیت ہی کیا؟ ان کے نتائج اور اثرات کا بھی اندازہ ہونا چاہیے۔

تو یہاں انسانی سوچ ایک نقطہء نظر اپنا لیتا ہے۔ اسے یہ افکار مطلوب ہوتے ہیں۔ کہیں یہ الفاظ اہل فکر کے لئے شرمندگی کا باعث تو نہیں بنتے؟ کیوں کہ ان کو ادا کرنے کے بعد نہ سوچنے کے لئے کچھ باقی رہتا ہے اور نا ہی مصالحت کے لئے۔ ہر انسان کے لئے اس کی اجتہاد اور دریافت اس کا علم ہے۔ یہاں ہر شخص کو میرے سوچ اور خیالات کے بر عکس تصورات رکھنے کا حق حاصل ہے۔ بس ٹوٹے پھوٹے خیالات سے جو ذہن میں آیا، تحریر کر دیا۔ یونہی تاریکیوں میں خیالات بھٹک گئے اور کرن کی آس لگائے کھو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).