اگر تم دنیا بدلنا چاہتے ہو!


مادام ٹریسا دی گریٹ فرماتی ہیں : ”اگر تم دنیا بدلنا چاہتے ہو تو گھر جاؤ اور گھر والوں سے محبت کرو۔“ اچھا، یعنی کیا؟ یعنی دنیا کو تبدیل کرنے، بہتر بنانے، انقلاب لانے کا پہلا میدان آپ کا اپنا گھر، اپنا صحن، اپنا آنگن، اپنی اولاد، اپنا خانوادہ، اپنا خاندان ہے۔ یعنی آپ کا گھر پہلا دائرہ کار ہے، جہاں آپ محبت، توجہ، خلوص، انصاف، احساس، برابری، رواداری، قربانی اور ہر فرد کے لئے یکساں عزت نفس برقرار رکھنے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ اپنے معاشرے کو مطعون کیے اور ریاست و ملت کے سر پہ ذمہ داری ڈالے بغیر۔

ایک جائزہ ہے، مشاہدے اور اطراف کے تجربے سمیت، 90 فی صد مسائل اور Split Personality بکھری ہوئی شخصیات، پیچیدہ نفسیاتی الجھنوں کے ساتھ، جو انسان ہمارے آس پاس سانس لے رہے ہیں، ان کی موجودہ حالت کے تانے بانے اور کریڈٹ ان کا Problematic Childhood ہے، دل پہ ہاتھ رکھیے اور کہیے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ایک بچہ نو ماہ اندر رکھ کے اسے دنیا میں لانے کے عوض آپ کے قدموں تلے واقعی جنت آ جاتی ہے؟ یا Parenting نام کی کوئی شے خدا کے یہاں قابل مواخذہ بھی ہو گی؟ نو سے پانچ کی نوکری کر کے گھر کا خرچ سرتاج/ولی ہونے کو کافی ہے؟ یا بچے کی تربیت اور جذباتی نشو و نما میں بھی باپ کا کوئی کردار ہے؟

ماں تو ماں ہوتی ہے سراپا محبت و شفقت، پھر ایسا کیوں کہ کچھ ماؤں کے بچے سیریل کلر، چور، ڈاکو، لفنگے، اذیت پسند، تحقیر آمیز، پست ذہنیت، شکی، حاکمیت پسند اور شرمناک حد تک ظالم، نفسیاتی مریض بنتے ہیں، غلطی کہاں ہے؟ اگر آپ کے انتہائی لاڈ پیار ناز و نعم میں پلا بچہ ذود رنج اور متکبر نکل رہا ہے تو اس کے ساتھ اسی گھر میں ایک بچے کو آپ بے وجہ کی مقابلہ بازی کا نشانہ بناتے ہوئے، اس کی نفسیات تباہ کرنے کا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں۔ یعنی نہ ڈھنگ سے پیار کرنا آیا نا طریقے سے سختی کرنا، بطور والدین آپ دونوں طرف منہ کی کھا رہے ہیں۔

جس بچے کو آپ خود توجہ نہیں دیتے، وہ معاشرے کی توجہ حاصل کرنے کو ہر وہ کام کرتا ہے، جس سے اس کی یہ کمی پوری ہو سکے۔ جس بچے کو آپ نے عزت و اہمیت نہ دی ہو، اعتماد نہ دیا ہو، کسی وجہ سے خود سے دور رکھا ہو، وہی اپنے وقت میں جب لوگوں کی تحقیر کرتا دکھائی دے، آپ کے نا پسندیدہ گروپ کی منڈلی جمائے بیٹھا ہو، تو الزام اس کو نہیں دیجیے، خود پہ افسوس کیجیے کہ اس کی منتشر شخصیت کی وجہ آپ ہیں۔ امام علی علیہ السلام کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جسے اپنے چھوڑ دیں، اسے غیر مل جاتے ہیں۔

جس بچے کی ہمت آپ نے نہیں بندھائی، بلکہ مذاق اڑایا اور تنقید کا نشانہ بنایا ہو، مت سمجھیے کہ وہ زندگی میں کسی کو عزت و رعایت دینا سیکھے گا۔ جس بچے نے آپ سے فرق کرنا سیکھا ہو، اور رنگ، نین نقش، ذہانت اور بعد ازاں اچھی تنخواہ کے پیرامیٹرز پہ عزت و اہمیت تقسیم ہوتی دیکھی ہو، بتائیں وہ کیسے ایک اچھا، پیارا، مہذب، متوازن فرد ہو گا؟

کوئی دس سال پہلے ہماری ایک بہت پیاری محترم بہن کے دروس اخلاق کا پسندیدہ موضوع، ”تربیت اولاد“ ہوا کرتا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی، جب رواں سالوں میں انہوں نے اس کے ساتھ ”تربیت والدین“ کے موضوع پہ بھی اسی تواتر سے روشنی ڈالنا شروع کی۔ اسی موضوع پہ گفتگو میں ایک بار ان سے عرض کیا، ”کیا نا پاک شے کسی شے کو پاک کرنے کا سبب ہو سکتی ہے؟“ (سوال کرنے کی وجہ یہ کہ میں ایک عام دنیا دار انسان، بالکل نارمل سا مسلمان ہوں، حوزوئی تعلیم سے علاقہ نہیں اور مذہبی معاملات میں تفسیر بالرائے پہ یقین نہ رکھنے کے سبب، اکثر اپنی کتابی معلومات کی تصدیق کرتی رہتی ہوں۔ اس کے لئے بزرگوں کی مشکور بھی ہوں ) ۔ جواب ملا: ”نہیں ایسا ممکن نہیں“ ۔ یعنی اگر شراب سے وضو کر کے نماز ادا کرنا شروع کی جائے تو ورزش ضرور ہو جائے گی، مگر نماز نہیں ہو گی۔ اس پہ میرے کچھ پیارے دوست کہیں گے، ”بالکل ہو جاتی ہے، ہم نے خود پڑھ کے دیکھی ہے۔“

بالکل اسی طرح، جب ہم تربیت اولاد کی جان کو رو رہے ہوں، تو لازم ہے، دھیان میں رہے کہ تربیت کرنے والا انسان ہونے کے کس درجے پہ فائز ہے۔ کیا وہ صفات جو بچوں / شاگردوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کو بہترین انسان بنانے پہ لتے لئے جا رہے ہیں، کیا وہی صفات ماں باپ کے کردار میں موجود ہیں؟ کیا ماں خود انصاف پسند ہے؟ کیا باپ بحیثیت اولاد بچوں میں برابر کی محبت و توجہ لٹاتا ہے؟ فیورٹ ازم نام کی کوئی بیماری اور لاڈلی اولاد کے نام پہ ایک آدھ غنڈہ بچہ پالنے والی روایت تو موجود نہیں؟

دوسروں کو نیچا دکھا رکھنے کی نفسیات خود ماں باپ کی فطرت ثانیہ تو نہیں؟ گھر کے قاعدے قانون میں کسی کو صدارتی استثنا تو حاصل نہیں؟ بے باکی اور straight forwardness کے نام پہ کسی سے بد تمیزی اور توہین کی اجازت موجود ہے یا نہیں؟ بات بہ بات ذلیل کرنے کا لائسنس ہولڈر گھر میں کون ہے؟ گھر کے ماحول کو خوش گوار، مثبت اور متوازن رکھنے میں ماں، باپ کتنے ذمہ دار اور متحرک ہیں؟

یقین کیجیے، یہ وہ تمام چیزیں ہیں، جو کسی کے بھی سر ڈال کے والدین بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اور نا ہی ”میں دودھ نہیں بخشوں گی“ اور ”باپ کی رضا، جنت کے دروازے کی چابی ہے“ جیسے روایتی جذباتی ہتھکنڈے اس حقیقت کو مسخ کر سکتے ہیں۔

ایک ہتھ چھٹ منہ زور بیٹی ہو، یا لا ابالی نوابی مزاج خود پسند بیٹا، دونوں کی تربیت ہی اس معاشرے میں آپ کا تعارف اور آخرت کے لئے آپ کی باقیات صالحہ یا عذاب قبر ہیں۔

میرے مخاطب وہ والدین ہیں جو اپنے تمام ”حقوق“ سے تو آگاہ ہیں، مگر والدین والے ”فرائض“ سے کنی کترائے ہوئے ہیں۔ میری پیاری ”بیٹوں کی ماؤں“ آپ کے بے جا لاڈ پیار اور بے لگام آزادی سے بگڑا ہوا سپوت، اگر اپنی بیوی کی توہین سے باز نہیں آ رہا، تو یہ مت کہیے کہ ”بیوی کسی لائق ہوتی، تو قابو کر لیتی۔ نالائق کہیں کی۔“ بلکہ تسلیم کیجیے کہ آپ کا پروان چڑھایا ہوا نمونہ، اب نا قابل اصلاح ہے، کہ جسے پیدا کرنے والی انسان کا بچہ نہ بنا سکی، اسے نکاح میں آنے والی کس جادو کی چھڑی سے بدلے گی؟

کیا آپ کو واقعی لگتا ہے ماں کے بگاڑے ہوئے کو بیوی سدھار لے گی؟ یعنی آپ کی تربیت کردہ بے ہنگم اور نفسیاتی مریضوں والی کم از کم 25 سالہ زندگی کے بعد ایک نئی لڑکی اسی انسان کو 5 سال میں ونڈوز 10 پہ اپ ڈیٹ کر لے ورنہ وہ نا کام بیوی ہے! واہ، سبحان اللہ، آنٹی آپ انہی خیالات کی وجہ سے جنت میں جائیں گی، بس جلدی سے مر جائیں پلیز۔

دیکھیں، یہ اصلاً بہت بری بات ہے کہ کسی کے مرنے کی دعا کی جائے، اور اس کے ساتھ اچھی بات یہ ہو سکتی ہے کہ میں سوچنا شروع کروں، آیا میرا وجود میری زندگی میرے گھر، خاندان اور مجھ سے جڑے انسانوں کے لئے سکھ اور سکون کا سبب ہے یا میرے دنیا سے گزر جانے کے بعد میری فاتحہ دلواتے اور بریانی تقسیم کرتے ہوئے ان کی زندگی میں زیادہ سکون ہو گا؟

جواب خود سے پوچھ لیجیے اور اگر شرمندہ ہونے کی نوبت آ جائے تو اپنے سے جڑے رشتوں پہ رحم کیجیے، ان کو حقوق دیجیے، محبت کیجیے، احساس کیجیے، لحاظ کیجیے، بالکل ویسے جیسے آپ اپنے لئے چاہیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ سب اچھا ہے اور آپ پرفیکٹ ماں باپ ہیں تو ایک نظر اولاد پہ ڈالیے اور سننے کی کوشش کیجیے کہ کہتی ہے، انہیں خلق خدا غائبانہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).