”کودتا“ کیا ہے؟


’کودتا‘ (coup d’é tat) کی اصطلاح انیسویں صدی میں معروف ہوئی، جب نپولین بونا پارٹ فرانس میں حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آیا۔‘ کودتا ’یعنی ایک ضرب نا گہانی کے ساتھ کسی نظام کو گرا دینا۔‘ کودتا ’صرف فوجی طاقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ضرب نا گہانی کسی بھی اندرونی یا بیرونی طاقتور گروہ کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ چوں کہ‘ کودتا ’کے نتیجے میں بھی حکومت تبدیل ہو جاتی ہے، اس لیے اس کو بھی عموماً انقلاب کہہ دیا جاتا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تاریخ بشریت میں اکثر حکومتیں‘ کودتا ’کے ذریعے تبدیل ہوئی ہیں اور بہت ہی قلیل تعداد، ایسی حکومتوں کی ہے، جو کسی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آئی ہوں۔‘ کودتا ’کے ذریعے وجود میں آنے والی تبدیلیاں غیر عوامی ہوتی ہیں۔ عوام کو خبر بھی نہیں ہوتی اور راتوں رات حکومتیں گرا دی جاتی ہیں۔ اگر‘ کودتا ’کرنے والے طاقتور گروہ کو موجودہ حکومت کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے، تو خون ریزی بھی ہو جاتی ہے۔

’کودتا‘ کے ذریعے آنی والی حکومتیں، بعض اوقات اصلاحات بھی لے کر آتی ہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں عوامی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ لیکن در حقیقت یہ تبدیلیاں انقلاب نہیں کہلاتیں، سوشلسٹ نظریات کے تحت دنیا میں رونما ہونے والی اکثر سیاسی تبدیلیاں طاقت کے بل بوتے پر لائی گئیں۔ مثلاً: صدام حسین کا آنا بھی ایک ’کودتا‘ تھا اور جانا بھی ’کودتا‘ تھا۔ کیوں کہ دونوں مرتبہ طاقت کے ذریعے سے حکومت کو گرایا گیا۔ اسی طرح مصر میں جمال عبد الناصر بھی ’کودتا‘ کے ذریعے ہی برسر اقتدار آیا۔ سابق نظام مملکت کو ذلت اور پستی کے کمال تک پہنچا چکا تھا۔ عوام کی تنگ دستی اور مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، جمال عبد الناصر نے چند دیگر فوجی افسروں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا اور نے ایسی بنیادی اصلاحات متعارف کروائیں، جس سے اس کی حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہو گئی۔

انیسویں صدی یورپ کے اندر ’کودتا‘ کی صدی کہلاتی ہے۔ کیوں کہ اس دوران میں یورپ میں شدید سیاسی نا پائیداری رہی، جس کا فائدہ اٹھا کر ایک طاقتور گروہ دوسرے کو ہٹا کر خود اقتدار پر قابض ہو جاتا۔ سوشلزم اور امپیریلزم کے مابین سرد جنگ کے دوران میں کئی ملکوں کے اندر ’کودتا‘ ہوا۔ ناپائیدار نظام کے اندر حالات سے تنگ عوام جب سڑکوں پر نکلتے ہیں، تو طاقتور گروہوں کے لیے حکومت گرانے کا یہی بہترین موقع ہوتا ہے۔ ’کودتا‘ کے اندر عوامی شمولیت نہیں ہوتی لیکن مسائل میں گھرے عوام کے حالات ’کودتا‘ کرنے والے گروہوں کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔

جس مملکت میں سیاسی و اجتماعی ناپائیداری موجود ہو، نظام متزلزل ہو، نظام کے اندر کئی خامیاں موجود ہوں، وہاں ’کودتا‘ جلدی اور آسانی سے کامیاب ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں پاکستانی قوم کے لیے ’کودتا‘ کو سمجھنا شاید سب سے زیادہ آسان ہو گا۔ کیوں کہ پاکستان بننے کے بعد سے لے کر اب تک یہاں ہر حکومت ’کودتا‘ کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہے۔ پاکستان میں فوج نے کئی بار حکومت پر قبضہ کیا، اس لیے یہاں بھی ’کودتا‘ کو فوجی مداخلت کے ساتھ ہی مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ سماجی و سیاسی اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے، تو روز حاضر تک پاکستان میں وجود میں آنے والی تمام حکومتیں ’کودتا‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔

فوج، بیورو کریسی، ٹیکنو کریسی، سیاستدان، سرمایہ دار، الغرض کوئی نا کوئی طبقہ یا چند طبقات مل کر طاقت کے بل بوتے پر، مملکت پاکستان پر حکومتیں گراتے اور بناتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اندر کبھی بھی سیاسی و اجتماعی آسودگی نظر نہیں آئی۔ موجودہ پاکستانی نظام کے اندر پائیدار سیاسی و اجتماعی نظام کو وجود میں لانا نا ممکن ہے، کیوں کہ ہمیشہ متزلزل رہنے والی بنیاد پر کوئی بھی پائیدار عمارت قائم نہیں کی جا سکتی۔ یہ نظام کیوں ہمیشہ متزلزل رہتا ہے؟ کیوں کہ اس کی بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔ اس کے اندر ثبات نہیں ہے۔ جب سارے کے سارا نظام بیساکھیوں کے سہارے کھڑا ہے، تو کیسے اس کے اوپر کوئی نظام دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔

اگر سیاسی و اجتماعی نظام کی جڑیں کسی مضبوط آئیڈیالوجی کے اندر راسخ ہوں، تو کسی بھی طاقتور گروہ کے لیے اس نظام کو گرانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ طبعی قانون ہے کہ ہر زندہ موجود کے اندر خود کار مدافعتی نظام ہوتا ہے، جو اس کو آفات سے بچائے رکھتا ہے۔ جس درخت کی جڑیں جتنی گہری اور مضبوط ہوں گی، اس کے اندر مدافعتی نظام بھی اتنا قوی ہو گا۔ جس درخت کو اپنی جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لے جا کر خوبصورتی یا کسی اور مقصد کے لیے زمین میں گاڑ دیا جائے، تو ایسے درخت کو کھڑا رہنے کے لیے رسیوں اور دیگر سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ بغیر ہوا کے بھی ہلتا رہتا ہے۔ سیاسی و اجتماعی نظام بھی ایک زندہ موجود کی طرح پرورش پاتا ہے، صحت مند اور پائیدار سوسائٹی کے اندر خود کار مدافعتی نظام موجود ہوتا ہے، جو اس کو گرنے سے بچائے رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).