امریکی تبلیغی جماعت


ہم پاکستان میں ملاؤں کے اثر و رسوخ کا رونا تو روتے ہی ہیں، لیکن امریکی تبلیغیوں نے، جو عرف عام میں ”ایونجلسٹ“ کہلاتے ہیں، جیسا ضرر امریکا ہی کو نہیں، ساری دنیا کو پہنچایا ہے، اس کی نظیر مذہبی انتہا پسندی کی جدید تاریخ میں نہیں ملتی۔ نومبر دو ہزار سولہ کی آٹھویں شب کو صدارتی انتخاب کے نتائج کے کروڑوں ناظرین کو یوں لگا، جیسے وہ ٹیلی ویژن نہیں، کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک بے یقینی کے عالم میں انہوں نے دیکھا کہ ہلیری کلنٹن کی پر یقین فتح کے بجائے، الیکٹورل کالج کی پیچیدگیوں کی برکت سے، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کا صدر بن گیا۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں کر ہوا؟ اہل دانش کا تو:

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

اگلی صبح دانشوروں کے تجزیے پڑھ کر لگ رہا تھا، جیسے افراد کی طرح قومیں بھی پاگل ہو سکتی ہیں۔ تو کیا یہ امریکا کا اجتماعی پاگل پن تھا؟ یا یہ دیوانہ بکار خویش ہشیار تھا؟

امریکی تجزیہ نگاروں نے جس اہم بات کو نظر انداز کیا، وہ ٹرمپ کی اعانت میں ایونجلسٹ کردار تھا۔ لیکن اگر چار سال پہلے کے ایونجلسٹ حامیوں نے تجزیہ نگار پنڈتوں کی قیاس آرائیوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں، تو اس انتخابی سال میں ایونجلسٹ تحریک اور بھی بڑے پیمانے پر ٹرمپ کی مدد کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کے مزید چار سال دنیا کے طاقت ور ترین ملک کو رجائیت کی ایک ایسی ڈگر پر ڈال سکتے ہیں، جس سے نجات حاصل کرنے میں صدیاں نا سہی دہائیاں تو ضرور لگ سکتی ہیں۔

ایونجلسٹ کا اولین فرض ایونجلائیز کرنا ہے۔ یعنی لوگوں کو اپنے مسلک کی طرف راغب کرنا۔ جیسے ہماری رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت عامتہ الناس کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں پیش پیش ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے تبلیغی لوٹے سے مسلح اور ٹخنوں سے اونچی شلوار میں ملبوس ہوتے ہیں اور ایونجلسٹ بریف کیس اور تھری پیس سوٹ میں۔ وسائل اور مسلک کا فرق ہے ورنہ ذہنیت دونوں کی ایک جیسی ہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے جدید دور میں بہت سے ایونجلسٹ اب ٹیلیونجلسٹ بن گئے ہیں، جو شاید ہمارے کئی نیوز اینکر اور ان کے سیاسی مہمانوں کے رول ماڈل بھی ہیں۔

ایونجلسٹ ایجنڈا دائیں بازو کی سیاست ہے۔ انہیں امریکی معاشرے کی دکھتی رگ کا صحیح علم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کلچر میں دور رس تبدیلیاں لانے کے لئے رجائیت کے نظریہ کا حامی عدالتی نظام، سب سے زیادہ معاون ہو سکتا ہے۔ اگر چہ ایونجلسٹ روایت پسند ہیں، اور مذہبی تعلیمات پر عمل کو خاص اہمیت دیتے ہیں، لیکن وہ ساتھ ہی بڑے مقصد کے حصول کے لئے چھوٹے سمجھوتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب یہ چھوٹے سمجھوتے بھی بہت بڑے ہو گئے ہیں۔

چار سال پہلے انہوں نے ریپبلکن پارٹی کے توسط سے ٹرمپ کی حمایت کر کے ایک جوا کھیلا۔ انہیں معلوم تھا کہ ٹرمپ ان کی کرسچن اقدار پر کسی طرح پورا نہیں اترتا۔ لیکن وہ انہیں فیڈرل اور سپریم کورٹ کے جج دے سکتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی اخلاقیات، عقائد اور تعلیمات، سب کو داؤ پر لگا دیا۔ دانتے کی انفرنو والے فاسٹ کی طرح اپنی روح کو شیطان کے ہاتھوں بیچ دیا۔ لیکن پھر بھی ان کے نقطۂ نظر کے مطابق قیمت بری نہیں تھی۔ ان کی جیت ہوئی اور اسی فی صد سے زیادہ ایونجلسٹ ووٹ ٹرمپ کو ملے۔ ٹرمپ کی فتح میں یہ ایک مرکزی عنصر تھا۔ اپنے کردار، بلکہ اس کے فقدان، کے با وجود ٹرمپ کی گرفت اس اہم انتخابی گروہ پر نہایت مضبوط ہے۔

حکومت میں چار سال گزارنے کے بعد ٹرمپ بڑے وثوق سے، اس گروہ سے مستحکم وفاداری طلب کر سکتا ہے۔ ہر انہونی بات کے ہونے کے باوجود، ٹرمپ کے بنیادی وفاداروں نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس نے اپنا وعدہ ان کی امیدوں سے بڑھ کر پورا کیا۔ سیاسی نمک حلالی اور وفاداری کی تاریخی مثال قائم کر دی۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ بھی سچا نکلا کہ اگر وہ ففتھ ایونیو پر کسی کو شوٹ بھی کر دے، تو اس کے چاہنے والوں کی وفا داری میں فرق نہیں آئے گا۔ اور ہوا بھی یہی ہے۔ کرونا وائرس کو جان بوجھ کر پھیلانا اور ہر احتیاط کی تضحیک اور حوصلہ شکنی کرنا بھی تو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ تبلیغی کون ہیں؟ ان کی تاریخ اور کہانی خطرناک بھی ہے اور دل چسپ بھی۔ امریکا میں ایونجلسٹ تحریک کی بنیاد انیسویں صدی کے آغاز میں پڑی۔ ابتدا میں اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کے عقیدے اور پشین گوئی کے مطابق دنیا میں بد اخلاقی، تباہی اور بربادی بڑھتی جائے گی۔ یہودی فلسطین لوٹیں گے اور اسرائیل کا قیام عمل میں آئے گا۔ پھر ایک ایسا سنگین دور آئے گا کہ اس کے تدارک کے لئے مسیح موعود دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اس کے بعد ساری دنیا یا تو مشرف بہ عیسائیت ہو جائے گی، یا یسوع مسیح پر ایمان نہ رکھنے والوں کا قلع قمع کر دیا جائے گا۔

شروع میں ان کی تبلیغ کا زیادہ زور اخلاق، حسن سلوک، پارسائی اور کرسچن اقدار کی پاسبانی رہا۔ ان اقدار کی بنیاد پر انہوں نے دوسرے فرقوں کو ایوینجلزم میں شمولیت کی رغبت دلائی۔ تحریک نے گورنمنٹ کو بھی ایک فاصلے پر رکھا۔ امریکی سیاست سے ایونجلسٹ گروپ کی وابستگی کو اتنا زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ جمی کارٹر کا صدارتی انتخاب اس تحریک کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹ جمی کارٹر خود بھی ایونجلسٹ تھا بلکہ صدارت چھوڑنے کے بہت بعد تک بھی وہ چرچ میں باقاعدگی سے ہفتہ وار خطبہ دیتا رہا۔

لیکن کارٹر کی مکمل شکست کے بعد رونلڈ ریگن کے دور میں یہ تحریک ریپبلکن پارٹی کے زیادہ قریب ہو گئی۔ مورل میجورٹی کی تنظیم اور ریگن کی حکومت میں اتحاد ہوا، اور ایونجلسٹ اور ریپبلکن پارٹی کے معاشرتی ایجنڈے کا پلڑا دائیں بازو کی طرف جھکتا گیا۔ ہم جنسی شادی، عورت کے اپنے جسم پر اختیار، سیاہ اور سفید فام لوگوں میں نسلی امتیاز، غلامی کے دور کی تاریخ اور امیگریشن کی پابندیوں پر ایونجلسٹ موقف میں شدت آتی گئی۔

حالیہ دور میں جس تاریخی واقعے نے ایونجلسٹ تحریک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، وہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جان میکین کے خلاف ایک دو نسلی، لیکن خود شناخت سیاہ فام ڈیمو کریٹ، باراک اوباما کی صدارتی کامیابی تھی۔ امریکی سینیٹ کے قائد مچ مکانل نے قسم کھائی کہ وہ اوباما کو صرف ایک ہی صدارتی میعاد پوری کرنے دے گا اور کسی حال میں اسے دوسری میعاد کے لئے منتخب نہیں ہونے دے گا۔ دائیں بازو کے انتہا پسند ریڈیو اور ٹیلیوژن کے اینکر نے ہر قسم کے تعصب کو کھلم کھلا عوام میں پھیلانا شروع کر دیا۔

پہلے جن نسلی اور مذہبی تعصبات کو سرگوشیوں میں بیان کیا جاتا تھا اب ببانگ دہل ان کا چرچا کیا جانے لگا۔ ابھی اوباما کی میعاد میں ایک سال باقی تھا، جب سپریم کورٹ کی پوزیشن خالی ہوئی، تو کہا گیا کہ انتخابی سال میں سپریم کورٹ کے جسٹس کا تقرر مناسب نہیں۔ عوام کو پہلے صدر چننا چاہیے، جو انتخاب کے بعد جسٹس کی نام زدگی کا چناؤ کرے۔ سینیٹ نے اوباما کے نام زد امیدوار کی تقرری پر ووٹ لینے سے صاف انکار کر دیا۔

ایونجلسٹ اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے کامیاب پروپیگنڈا کر کے، امریکا کے سفید فام، خاص طور پر اعلی تعلیم اور معاشی خوش حالی سے محروم، لوگوں کو قائل کر لیا کہ اوباما اور لبرل ان پر سیاہ فام، لاطینی، گے، لیزبین، مسلمان اور سوشلسٹوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر ان کی حکومت رہی، تو سفید لوگ اکثریت کے با وجود اپنے حقوق اور اور خوش حالی کی امید کھو بیٹھیں گے۔ سب سے بڑا خوف یہ کہ وہ سیاہ فام لوگوں کو ایک بر تر اور تفوق رکھنے والی سفید نسل پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

تقریباً چار سال گزرنے کے بعد ٹرمپ کی گرفت ایونجلسٹ تحریک پر اتنی مضبوط ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی رگ جاں پنجہ ٹرمپ میں ہے۔ یہ اتحاد اب شائستگی، معقولیت اور اقدار سے اتنا عاری ہو چکا ہے کہ صرف ایک برائے پروپیگنڈا تصویر کے لئے ٹرمپ کے اٹارنی جنرل نے، آنسو گیس کے استعمال کی اجازت دی اور نہتے لوگوں پر تشدد کیا، تا کہ وہ ایک چرچ کے سامنے کھڑا ہو کر بائبل کو ہاتھ میں اٹھا کر مذہب کے نام پر اکثریت سے اپیل کر سکے۔

چند ہفتوں میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں، پولنگ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت میں ہونے کے با وجود، ان تبلیغی جماعتوں کی طاقت اور ان کی گرفت کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ عہد ٹرمپ میں سپریم کورٹ کے تیسرے جسٹس کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ یہ تبلیغی جماعتیں ان زد پذیر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، جو سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن صرف عارضی صدر ہو گا۔ انہیں خوف دلایا جا رہا ہے کہ پہلی ٹرم کے بعد، یا اس کی عمر کے تعلق سے، پہلی ٹرم کے اختتام سے بھی پہلے، زمام اختیار ایک سیاہ فام اور بھارتی نژاد عورت، کملا حارس، کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ ایونجلسٹ گروہ کے لئے یہ صورت احوال نا قابل تصور ہے۔ ٹرمپ اور ان انتہا پسندوں سے کچھ بعید نہیں کہ اس قیاسی خطرے سے بچنے کے لئے انتخابی نتیجے تک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر حد پار کرنے پر تیار ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).