سٹان سوامی: انڈیا کے سب سے عمر رسیدہ ’مبینہ دہشت گرد‘


گذشتہ ہفتے جمعرات کو انڈیا کی نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکار ایک بڑی سے گاڑی میں انڈیا کی مشرقی ریاست جھاڑکنڈ کے شہر رانچی کے نواحی علاقے میں پہنچے اور گاڑی ایک سرخ اور سفید رنگ کی عمارت کے سامنے کھڑی کر دی۔

اس عمارت سے انھوں نے ایک بیمار، 83 سالہ پادری سٹان سوامی کو حراست میں لیا جو کہ ایک مسیحی فرقے سے تعلق رکھنے والے پادری ہیں اور ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی ہیں۔

اہلکاروں نے ان کا موبائل فون اپنے قبضے میں لے لیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا سامان باندھیں اور ساتھ چلیں۔ اس کے بعد انھوں نے پادری سٹوان سوامی کو ہوائی اڈے تک پہنچایا اور ممبئی جانے والی ایک پرواز میں بٹھا دیا، جہاں وہ 23 اکتوبر تک جوڈیشل حراست میں رہیں گے۔

سٹان سوامی پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ انڈیا میں ایسے الزام کا سامنے کرنے والے سب سے عمر رسیدہ شخص ہیں۔

این آئی اے انڈیا کا وہ ادارہ ہے جو ملک میں دہشت گردی اور ان سے منسلک جرائم کی روک تھام کرتا ہے۔

انھوں نے سٹان سوامی پر ماؤ نوازوں سے تعلق رکھنے اور 2018 میں ہونے والے نسلی فسادات کے واقعے کی وجہ سے دہشت گرد کے الزامات عائد کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

ماؤ نوازوں سے روابط پر پروفیسر کو عمر قید

ماؤنوازوں کی خونریز جنگ بے معنی ہو چکی ہے

ملک گیر چھاپے، حقوق انسانی کے کارکن گرفتار

ماؤ نواز باغیوں کے گروہ انڈیا کی کئی مشرقی ریاستوں میں فعال ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کمیونسٹ بالادستی، قبائلی عوام اور غریب دیہاتیوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

اپنی حراست سے چند روز قبل سٹان سوامی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ این آئی اے کے اہلکاروں نے ان سے جولائی میں پانچ دن تک سوالات کیے تھے۔

Tribal protestors in Jharkhand

جھاڑکنڈ کے قبائلی افراد عرصے سے اپنے وسائل اور حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں

ان اہلکاروں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھوں نے سوامی کے کمپیوٹر سے ایسا مواد حاصل کیا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ ان کہ ماؤ نوازوں سے تعلقات تھے، لیکن سٹان سوامی نے اس کی مکمل تردید کی۔

انھوں نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ ’خفیہ‘ طریقے سے یہ مواد ان کے کمپیوٹر میں ڈال دیا گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بڑھتی عمر، خراب صحت اور کورونا وائرس کی وبا کے باعث ان کا ممبئی جانا ممکن نہیں ہو گا۔

جون 2018 سے لے کر اب تک، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت مہاراشٹر ریاست کے بھیما کوریگاؤں میں 2018 میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے اب تک 161 افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔

حراست میں لیے جانے والے افراد میں انڈیا کے انتہائی قابل عزت سکالرز، وکلا، اساتذہ، سماجی و ثقافتی کارکنان، اور حتیٰ کہ ایک عمر رسیدہ شاعر بھی شامل ہیں جنھیں جیل میں کورونا وائرس کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔

ان تمام افراد کی ضمانت بھی مسترد کر دی گئی اور اس کا سبب تھا انڈیا کا دہشت گردی کے خلاف بنایا گیا قانون جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ناقدین کو چپ کرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

امریکہ کی یونی ورسٹی آف میساچیوسٹس میں پبلک پالیسی پڑھانے والی سنگیتا کمات کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی شرمناک بات ہے۔ انڈیا میں آج سے پہلے انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں پر اس طرح کی پابندیاں کبھی عائد نہیں کی گئی تھیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں کیے جانے والے اقدامات کا موازنہ 1975 کے واقعات سے کیے جا سکتا ہے جب اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور جس کے بعد انڈیا بھر میں شہری حقوق سلب کر دیے گئے تھے اور سینسرشپ کا نفاذ ہو گیا تھا۔

‘یہ اُس وقت سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اب باضابطہ اعلان کیے بغیر ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔’

سٹان سوامی پر انڈیا کے تفتیشی اداروں کی کئی عرصے سے نظر تھی۔ اپنی ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو برسوں میں ان کے گھر پر دو بار چھاپے مارے گئے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ان کے ’بائیں بازوں کے انتہا پسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔‘

لیکن وہ لوگ جو سٹان سوامی کو جانتے ہیں، کہتے ہیں کہ دھیمے مزاج والے پادری نے 1991 سے قبائلی عوام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے جب وہ جھاڑ کنڈ منتقل ہوئے تھے۔

جھاڑکنڈ ماؤ نواز باغیوں اور حکومت کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ انڈیا کی بیش قیمت معدنیات کا 40 فیصد جھاڑکنڈ میں ہے لیکن اس کے باوجود جھاڑکنڈ میں ترقیاتی کام بہت کم ہوئے۔

تین کروڑ کی آبادی والی ریاست کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ان قبائلی افراد پر مشتمل ہے لیکن انڈیا کے باقی علاقوں کی طرح ان کے ساتھ بھی دیگر اقلیتوں والا ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کے سماجی حالات بہتر کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ ابھی تک تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔

Coal mines in Jharkhand

جھاڑکنڈ میں کوئلے کی کان

انڈیا کے معروف تاریخ دان رامچندرا گوہا کہتے ہیں کہ انڈیا کے قبائلی افراد وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔

اور یہی وہ بات ہے جس کی خاطر سٹان سوامی نے اپنی زندگی کا بڑا عرصہ ان افراد کے حقوق کی خاطر لگا دیا ہے۔

انھوں نے تین ہزار افراد کی رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رابطہ کیا جن کو حکام نے ماؤ نواز قرار دے کر جیلوں میں قید کر دیا تھا۔

انھوں نے ہزاروں میل کا سفر کر کے قبائلی افراد کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ ان کے علاقوں میں کس طرح کان کنی ہو رہی ہے اور کس طرح ان کی اجازت کے بغیر ڈیم اور رہائشی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اور ان سے ان کی زمینیں لی جا رہی ہیں۔

انھوں نے کھل کر قبائلی افراد کی جانب سے 2018 میں کی گئی بغاوت کی حمایت کی تھی اور کہا کہ وسائل اور زمین پر حق ان کا ہی ہے۔ انھوں نے متعدد بار مضامین لکھے جس میں انھوں نے بڑی کارپوریشنز پر تنقید کی اور کہا کہ وہ قبائلی وسائل پر قبضہ کر رہی ہیں۔

گرتی ہوئی صحت کے باوجود سٹان سوامی نے قبائلی افراد کی حمایت میں بولنا نہیں چھوڑا۔ انھوں نے ماضی میں کینسر کو بھی شکست دی ہے اور ان کا تین بار آپریشن بھی ہوا ہے۔

ان کے ہاتھوں میں ایک ایسا عارضہ ہے جس کی وجہ سے وہ لرزتے ہیں لیکن ڈاکٹرز یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ انھیں کیا بیماری ہے۔

ایک دہائی سے سٹان سوامی کو جاننے والے ماہر معیشت شان ڈریز کہتے ہیں کہ ’وہ بہت خوش اخلاق اور کھرے انسان ہیں، اور ہمیشہ وقت کے پابند ہیں، اور سیکولر ہیں اور اپنے مقاصد کے ساتھ ہر دم جڑے ہوئے ہیں۔‘

Stan Swamy

PTI
سٹان سوامی کی حراست پر جھاڑکنڈ میں مظاہرے بھی ہوئے

انھوں نے مزید کہا: ’سٹان سوامی کی ہمدردیاں ماؤ نوازوں کے ساتھ بالکل ہوں گی جو کہ جھاڑ کنڈ جیسی جگہ پر کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے، لیکن اس سے وہ خود ماؤ نواز نہیں ہو گئے۔ ان کو حراست میں لینے کا مطلب ہے کہ مخالفین کو ڈرایا اور دھمکایا جائے۔‘

سٹان سوامی کے ایک اور دوست ژیویر ڈیاس کہتے ہیں کہ پادری سوامی کے لیے لوگ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔

ژیویر ڈیاس بتاتے ہیں کہ حراست میں لیے جانے سے دو ہفتے قبل سٹان سوامی ان کے گھر کھانے پر آئے تو دونوں مستقبل اور سٹان کی ممکنہ حراست کے بارے میں بات کرنے لگے۔

انھوں نے ڈیاس کو بتایا: ‘میرا سامان تیار ہے اور میں جانے کے لیے تیار ہوں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp