وزارت خارجہ کے افسروں کی بیرون ملک تعیناتی


ہم (پاکستانی) بھی عجیب لوگ ہیں، اکثر و بیشتر دُہرے چہرے سجائے پھرتے ہیں، مگر دوسروں سے مکمل وفاداری کی امید رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اس بات سے اتفاق نہ کریں اور خود کو پارسا گردانتے ہوں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے بچوں کے لئے انگریزی نظام تعلیم ڈھونڈتے ہیں اور یورپ، امریکا یا برطانیہ میں رہتے ہوئے اسلامی طرز کے تعلیمی ادارے تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اگر چہ آئین و قانون میں بہت سی چیزیں واضح ہیں، مگر کوئی پروا ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی دل جلا نظام کی بد سلوکی سے تنگ آ کر عدالتوں کا رخ کر بھی لے تو خیر سے ہمارا عدالتی نظام، معیار اور کام اتنا سست ہے کہ بقول شاعر:
؎ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

پارلیمنٹ، عدلیہ، بیورو کریسی یا دیگر ادارے اپنا قبلہ درست کرنے کے بجائے دوسروں کے کردار پر سوال ضرور کرتے ہیں مگر اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ حال ہی میں وزارت خارجہ کے دو افسران زاہد نصراللہ صاحب اور ماجد صاحب نے وزارت خارجہ میں پسند و ناپسند یا سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ہونے والی تعیناتیوں پر عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی ہے۔ اگر چہ کئی سالوں سے بطور رپورٹر کام کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے معاملات پر گہری نظر ہے مگر یہ میری بد قسمتی کہہ لیں کہ ذاتی طور پر میری ان افسران کے ساتھ کوئی جان پہچان نہیں ہوئی اور نا ہی چہرہ شناسائی ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک ادارے میں کام کرتے ہوئے انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور یہ لوگ عزت کے لائق ہیں۔ اب چوں کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہذا ہم اس پر زیادہ تبصرہ نہیں کر سکتے لیکن ترجمان دفتر خارجہ سے ایک یا دو بار اس پر سوال کیا گیا، تو انہوں نے جس انداز میں جواب دیا، اس سے مجھے تھوڑی تشویش لاحق ہوئی اور پھر کچھ افسر سے اس بارے میں بات بھی ہوئی تو یہ تاثر ملا، کہ شاید انہوں نے کوئی غلط کام کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اداروں میں قواعد و ضوابط پر پابندی کرنا لازم نہیں ہوتا؟ اس کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ نا صرف وزارت خارجہ بلکہ ہر ادارے میں پسند و نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ میں ایک پالیسی تو پہلے موجود تھی لیکن سال 2015ء میں اس سے متعلق قواعد و ضوابط طے کیے گئے تھے، جس کے مطابق وزارت خارجہ نے بین الاقوامی ممالک کو 3 یا 4 کیٹگری میں تقسیم کیا گیا مثلاً  اے، بی، سی، اسٹینڈرڈ ماحول اور سہولیات کے لحاظ سے، اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں پاکستانی مشن کو ایکس وائی زیڈ کے لحاظ سے بھی ایک تقسیم موجود ہے۔ جو پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ شاید یہ ترتیب اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ایک سفارت کار کو تھرڈ سیکرٹری سے فرسٹ سیکرٹری، کونسلر، منسٹر اور پھر سفیر بننے تک تمام تجربات سے گزرنا چاہیے اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور ان کی اہمیت کے بارے میں علم ہو۔

لہذا اگر ایک سفارتکار اے اسٹینڈرڈ اور ایکس کیٹگری کے ملک میں تعینات ہے تو اس کی دوسری پوسٹنگ بی یا سی کیٹگری میں ہونی چاہیے اور اس طرح سے وائی زیڈ کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اسی طرح سے ہر تین یا چار سال کے بعد ہر افسر کو ہیڈ کوارٹرز میں بھی تعیناتی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں جن افسروں کے اعلیٰ سطح پر تعلقات ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ فرسٹ کلاس سطح میں گھومتے رہتے ہیں، جب کہ میں ایسے بھی افسروں کو جانتا ہوں جو اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ لیکن زندگی میں انہیں کبھی ”اے“ کیٹگری ممالک میں کام کرنا نصیب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس ایسے بھی ہیں، جو ساری زندگی مزے کی گزارتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اول الذکر افسران میں قابلیت کی کوئی کمی تھی یا دوسرے افسران اعلیٰ صفات اور غیر معمولی قابلیت کے مالک تھے۔ بس کمی تھی تو ”صحیح“ جگہوں پر تعلقات بنانے کی کمی تھی۔

اب ترجمان دفتر خارجہ کے جواب پر مجھے حیرانی ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ بیرونی ممالک میں تعیناتیاں ایک وضع کردہ طریقہ کار کے تحت کی جاتی ہیں (چودھری صاحب میرے لئے محترم ہیں اور یہ ان کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے) اب سوال یہ ہے کہ جن افسران نے یہ پٹیشن دائر کی، کیا وہ لوگ اس طریقہ کار سے واقف نہیں تھے، جو انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا؟

اب میں کچھ کہوں گا یا ان افسروں کے نام لکھوں گا تو یار لوگ برا مان جائیں گے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ حالیہ تعیناتیوں میں کون سے ”طریقہ کار“ کو فالو کیا گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ کن مصلحتوں کے تحت لوگوں کو ان کی ”کارکردگی“ کو جانتے ہوئے بھی برداشت کیا جاتا ہے یا ان کے پیچھے کون سے ہاتھ کار فرما ہوتے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ اگر آپ سفارتکاری میں بہتری چاہتے ہیں تو آپ کو سفارش اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر کام کرنا ہو گا اور یہ صرف بات وزارت خارجہ تک ہی محدود نہیں دیگر اداروں میں بھی ایسے ہی کارنامے سرانجام دیے جاتے ہیں۔ بلکہ حالت یہ ہے کہ وزرا اور معاون خصوصی کی فوج ظفر موج بھی خصوصی تعلقات پر تعینات ہوتی ہے۔ ہم کچھ کہیں تو ہماری حب الوطنی پر سوال کیے جاتے ہیں، یا پھر کہا جاتا ہے کہ بچوں کی فکر کرو، ملک کی فکر کرنا چھوڑو۔ مرضی ہے آپ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).