گلگت بلتستان الیکشن: پی ٹی آئی کی حلقہ وار پوزیشن


گلگت بلتستان انتخابات میں 33 دن باقی ہیں۔ اگلے ایک ماہ میں مختلف حلقوں میں بہت کچھ بدلنا ہے۔ تاہم آج کی صورت احوال کچھ یوں ہے کہ فرض کریں 15 نومبر کی بجائے 15 اکتوبر کو الیکشن ہوا تو دیامر ڈویژن میں پی ٹی آئی روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے۔ گلگت ڈویژن میں وفاقی حکمران پارٹی، مکمل فارغ ہے۔ جب کہ بلتستان ڈویژن میں ففٹی ففٹی کی پوزیشن ہے۔ دیامر ڈویژن کے تمام 6 حلقوں میں تحریک انصاف کے اچھے امیدوار ہیں یا یہ کہ ٹکٹ ملنے کے بعد، امیدوار تگڑے ہو گئے ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ ان 6 میں سے 4 امیدوار پی ٹی آئی کے اپنے امیدوار ہیں، پیراشوٹر نہیں۔

حلقہ 13 استور ایک پر خالد خورشید مضبوط تر امیدوار ہیں اور اگلے حکومتی سیٹ اپ میں اہم عہدے کے دعوے دار اور حق دار۔ حلقہ 14 استور 2 میں پی ٹی آئی کے اپنے دیگر امیدواروں کی حمایت کے بعد، شمس لون کی لہر بنتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب پی پی پی پی، مسلم لیگ نون کے پاس بھی تگڑے امیدوار نہیں۔

حلقہ 15 دیامر ایک میں البتہ پی ٹی آئی کو ابھی خاصی محنت درکار ہے، گو کہ نوشاد عالم اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ حلقہ 16 دیامر 2 چلاس میں ٹکٹ سے محروم عبد العزیز کی مخالفت کے با وجود رائے عامہ پی ٹی آئی کے عتیق اللہ کے لئے سازگار دکھائی دیتی ہے۔ سابق مسلم لیگی (نون) وزیر جانباز خان کے انتقال کے بعد، ان کے بھتیجے انور میدان میں اترے ہیں مگر ابھی ان کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔

حلقہ 17 داریل میں ڈاکٹر زمان کو رام کرانے کے بعد، شیر سے کھلاڑی بننے والے حیدر خان انتخابی ببر شیر دکھائی دے رہے ہیں۔ حلقہ 18 تانگیر میں مسلم لیگ نون نے تا حال عمران وکیل کو نہیں اتارا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سعدیہ دانش خانہ پری کریں گی۔ سو یہاں جے یو آئی پلٹ پی ٹی آئی کے گلبر خان ہی قابل ذکر امیدوار ہیں۔

گلگت ڈویژن میں پی ٹی آئی کی حالت ابھی تک تو نا گفتہ بہ ہے۔ گلگت کے 2 حلقوں پر پی پی پی پی کے صدر امجد ایڈوکیٹ اور مسلم لیگ نون کے صدر حفیظ الرحمان کے مقابلے میں، بلے والے فارغ ہیں۔ حلقہ 3 میں بھی حالت نازک تھی، تاہم جعفر شاہ کی ناگہانی رحلت کے بعد یہاں انتخاب ہی ملتوی ہو چکا ہے۔ حلقہ 4 نگر ایک پر آج کی صورت احوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار آغا بہشتی بس پیپلز پارٹی کے جاوید حسین اور اسلامی تحریک کے باقر شیخ کا ٹاکرا دیکھیں گے۔ حلقہ 5 نگر پر تحریک انصاف کا امیدوار نہیں۔ البتہ حلقہ 6 ہنزہ کی نشست کرنل عبید اللہ نکال سکتے ہیں، بشرطیکہ تا حال خاموش میر فیملی (میر غضنفر) کی حمایت لینے میں کامیاب ہو گے۔

غذر میں پی ٹی آئی کو خاصی مشکلات ہیں۔ تینوں حلقے ہی اسٹیک پہ لگے ہیں۔ حلقہ 19 غذر ایک پر ظفر شادم خیل کو نواز ناجی اور پیر کرم علی شاہ کے فرزند پی پی پی کے جلال علی شاہ جیسے تگڑے امیدواروں سے نپٹنا ہے۔ حلقہ 20 غذر 2 پر نذیر احمد بہت سوں کے لیے سرپرائزنگ امیدوار ہیں۔ اس حلقے پر مقامی لوگوں اور صحافیوں سے معلومات لینے کے با وجود تا حال کوئی تجزیہ کرنے سے قاصر ہوں۔ حلقہ 21 غذر 3 پر پی ٹی آئی کے جانے پہچانے امیدوار راجا جہانزیب کو اس بار سخت مقابلے اور مشکلات کا سامنا ہے۔ انہیں اپنوں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ مسلم لیگ نون کے بڑے سیاست دان غلام محمد اپنی پوزیشن بنا رہے پیں، پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بلتستان ڈویژن: حلقہ 9 سکردو 3 اور حلقہ 11 کھرمنگ میں پی ٹی آئی کے فدا ناشاد اور امید زیدی تو جیت ہی چکے۔ حلقہ 7 سکردو شہر اور حلقہ 12 شوگر میں ففٹی ففٹی کی پوزیشن ہے۔ سکردو میں ابھی تک پیپلز پارٹی کے سید مہدی شاہ کی اچھی پوزیشن ہے۔ اگلے ایک ماہ میں پی ٹی آئی نے اپنے ناراض رہنماؤں پہ کام نہیں کیا بلکہ اور بھی بہت کچھ نہیں کیا، تو سید مہدی شاہ کو ہرانا بہت مشکل ہو گا۔ شوگر میں مقابلہ ہمیشہ بین بین ہوتا ہے۔ اس بار دیکھنا ہو گا کہ مسلم لیگ نون کے طاہر شگری کے بظاہر ساتھ دکھنے والے سپورٹرز پولنگ ڈے ان کے ووٹر بنتے ہیں کہ نہیں۔

طاہر شگری جتنے مضبوط ہوں گے، راجا اعظم اتنے کمزور ہوتے جائیں گے۔ روندو میں جیتنے کا مقابلہ دو روایتی حریفوں وزیر حسن اور کیپٹن سکندر میں ہو گا۔ ایم ڈبلیو ایم کے مشتاق حکیمی وغیرہ کیپٹن سکندر کے لئے رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس بار باری بھی وزیر حسن کی ہے، ٹکٹ بھی ان کے پاس ہے سو دیکھنے والوں کو نتیجہ بھی سامنے نظر آنا چاہیے۔

گانچھے میں حلقہ 24 پر پی ٹی آئی کے شمس الدین پی پی کے سدا بہار ممبر اسمبلی انجینئر اسماعیل کو ہراتے ہیں تو یہ معجزہ ہو گا۔ حلقہ 23 گانچھے 2 میں آمنہ انصاری کو سیٹ نکالنا جوئے شیر نکالنے جیسا ہو گا۔ آخری ایک دو ہفتوں میں ایک دو آزاد امیدواروں کا یارانہ نصیب ہوا، تو جیت بھی نصیب ہو سکتی ہے ورنہ میل ڈومیننٹ حلقے میں مشکل ہی ہے۔ حلقہ 22 گانچھے ایک میں پیپلز پارٹی کے الیکٹیبل امیدوار محمد جعفر پی ٹی آئی سے ناراض امیدوار مشتاق وغیرہ کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے، تو نتیجہ اپنے حق میں لا سکتے ہیں، بصورت دیگر مسلم لیگ نون پلٹ، پی ٹی آئی کے ابراہیم ثنائی جیت جائیں گے۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen