اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کا منتخب ہونا کتنی بڑی بات ہے؟


سکیورٹی کونسل
اس سے قبل پاکستان سنہ 2018 میں جنوری سے انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بنا تھا
پاکستان کے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں دوبارہ انتخاب کو سرکاری سطح پر ایک منفرد کامیابی قرار دیا گیا ہے، لیکن کیا یہ ایسی کامیابی کہی جا سکتی ہے جو پاکستان کو ایک 'منفرد' موقع فراہم کرنے جا رہی ہے؟

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کے دوبارہ منتخب ہونے پر پاکستان کے نیویارک میں مشن کی تعریف کی ہے جس نے پہلے ہی اس کامیابی کی پاکستان کو مبارک باد دے دی تھی۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی کونسل میں پاکستان کے دوبارہ منتخب ہونے سے پاکستان کو مسئلہِ کشمیر کو اجاگر کرنے کا ایک منفرد موقع ملے گا۔ پاکستان نہ صرف اس وقت بھی اس کونسل کا رکن ہے بلکہ ماضی میں کل پانچ مرتبہ اس کونسل کا رکن منتخب ہو چکا ہے۔

پاکستان کے ایک سابق سیکریٹری خارجہ، نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ان چار نشستوں کے لیے پانچ امیدوار تھے اس لیے پاکستان کو اپنی حمایت میں مہم چلانے کا ایک موقع ملا اور اس نے زیادہ ووٹ لیے۔ پاکستان نے خفیہ رائے شماری میں جنرل اسمبلی میں 193میں سے 169 ووٹ حاصل کیے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان: انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اسی لاکھ لوگ گزشتہ چھ ہفتوں سے قید میں ہیں

وسعت اللہ خان کا کالم: انسانی حقوق کی ہومیو پیتھی

پاکستان کے بعد سب سے زیادہ ووٹ ازبکستان کو ملے جو 164 تھے، اس کے بعد نیپال کو 150 اور چین کو 139 ووٹ ملے۔ اس طرح زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے چار ممالک اس کونسل کے رکن منتخب ہو گئے۔ پانچواں ملک سعودی عرب صرف 90 ووٹ حاصل کر سکا اور ناکام رہا۔

اس سے قبل پاکستان سنہ 2018 میں جنوری سے انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بنا تھا اور اس کی رکنیت کی تین برسوں کی میعاد اس سال کے آخر میں ختم ہو گی۔ دوسری مرتبہ منتخب ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اگلی میعاد جنوری 2021 سے شروع ہو گی جو سنہ 2023 دسمبر تک مکمل ہو گی۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سنہ 2006 میں بننے کے بعد سے اب تک پاکستان پانچ مرتبہ اس کا رکن منتخب ہو چکا ہے۔ رواں سال اور اگلے برس دسمبر تک انڈیا بھی اس کونسل کا رکن ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اس کونسل کے قواعدو ضوابط کے مطابق، اس کے کل 47 ارکان ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ لیکن ان ارکان کے ایک تہائی ہر برس اگلے تین برسوں کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ تاہم کوئی ایک ملک یکے بعد دیگرے صرف دو مرتبہ انتخاب لڑ سکتا ہے۔

دو مرتبہ مسلسل منتخب ہونے کے بعد یہ ملک تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے کا اہل نہیں ہوگا۔ لیکن یہی ملک ایک بار کے وقفے کے بعد پھر سے یکے بعد دیگرے دو مرتبہ منتخب ہو سکتا ہے۔ عموماً ان انتخابات میں ہر خطے کے امیدواروں کا فیصلہ پہلے ہی سے طے ہو چکا ہوتا ہے۔

لیکن اس مرتبہ ایشا-بحرالکاہل کے خطے کی چار نشستوں کے لیے پانچ امیدوار تھے۔ پانچواں امیدوار چین تھا، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق، اس طرح چین کا مقابلہ سعودی عرب سے بن گیا اور چین نے سعودی عرب سے زیادہ ووٹ حاصل کر لیے۔

پاکستان کے ایک سابق سینیئر سفارتکار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ اس کامیابی پر جشن منانا اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے مترادف ہے کیونکہ یہ بات طے شدہ تھی کہ پاکستان اپنے خطے یعنی ایشیا-بحرالکاہل کے خطے کی چار نشستوں میں سے ایک پر کامیاب ہو جائے گا۔

تاہم سابق وزیرِ اطلاعات اور مسلم لیگ نون کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاکسان کے دوبارہ رکن منتخب ہونے کو ‘ایک سیاق و سباق میں رہتے ہوئے سراہا ہے۔ کیونکہ یہ کامیابی ایسے حالات میں ملی ہے جب ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے پاکستان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔

‘اس کے علاوہ انڈیا نے پوری کوشش کی تھی کہ پاکستان کی انتخاب لڑنے کی کوشش کو مسئلہِ کشمیر کا بہانہ بنا کر روک سکے، کیونکہ پاکستان ہی کشمیریوں کی بنیادی آواز ہے۔مزید یہ کہ تیل سے مالا مال ملک سعودی رب نے انتخاب لڑا اور وہ ہار گیا جبکہ پاکستان کی فتح کی کامیاب کا فرق کسی بھی ایشیائی ملک سے زیادہ ہے۔’

سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق، ‘اس لحاظ سے پاکستان کی کامیابی کی کافی وسیع اہمیت ہے، اس لیے اس کامیابی پر جشن منانے کا جواز بنتا ہے کیونکہ یہ کشمیریوں کے حوصلوں میں اضافہ بھی کرے گی۔’

انسانی حقوق کے ایک فعال کارکن کا کہنا ہے کہ اگر ایشیا میں پانچ سے زیادہ امیدوار ہوتے تو شاید چین بھی منتخب نہ ہو پاتا۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جن ممالک کے اپنے ریکارڈ انسانیت کے لیے باعثِ شرم ہیں انہیں اس کونسل کا رکن نہیں بنانا چاہیے۔

اقوامِ متحدہ کا انسانی حقوق کونسل

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اس کونسل کے قواعدو ضوابط کے مطابق، اس کے کل 47 ارکان ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی منتخب کرتی ہے

باقی خطوں میں جتنی نشستیں خالی ہو رہی تھیں اتنے ہی امیدوار تھے۔ اس کے نتیجے میں روس اور کیوبا بھی بلا مقابلہ انسانی حقوق کی کونسل کے رکن منتخب ہو گئے ہیں۔ روایتی طور پر جنرل اسمبلی اس کونسل کے انتخاب کے لیے اُمیدوار ملک کی انسانی حقوق کی حفاظت اور فروغ کے لیے اس کی خدمات دیکھتی ہے۔

اس کونسل میں وسائل یا آبادی کے بجائے خطے کے لحاظ سے نشستوں کی تقسیم کی گئی ہے۔

افریقی ریاستوں کے لیے 13 نشستیں ہیں۔ ایشیا-بحرالکاہل ریاستوں کے لیے 13 نشستیں، لاطینی امریکہ اور کیریبین ریاستوں کے لیے 8 نشستیں۔ مغربی یورپ اور دیگر ریاستوں کے لیے 7 جبکہ مشرق یورپ کے لیے 6 نشستیں ہیں

لیکن پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر اور ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سکالر، حسین حقانی کہتے ہیں کہ ‘اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ ممالک جو انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہوتے ہیں وہ اس میں منتخب ہونے کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں۔’

حسین حقانی نے کہا کہ ‘جب چین اپنی ایک اویغر آبادی کو انسان ہی نہیں سمجھتا ہے، اور کیوبا جو ایک جمود کا شکار آمریت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، وہ بھی اس کے رکن منتخب ہو جاتے ہیں، اس لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اس کونسل کو کوئی بھی سنجیدگی سے کیوں دیکھے گا۔’

لیکن سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ ‘پاکستان کا اس کونسل میں پانچویں مرتبہ منتخب ہونا ایک لحاظ سے بین الاقوامی برادری کا پاکستان پر اعتماد کا اظہار کرنا ہے اور یہ تسلیم کرنا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق اور جمہوریت کے لحاظ سے درست سمت کی جانب گامزن ہے۔’

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کا انتخاب تو ایک طے شدہ معاملہ تھا، تو نجم الدین شیخ نے کہا ‘ہاں ایسی ہی بات ہونی چاہیے تھی، اس گروپ میں مختص شدہ نشستوں کی تعداد سے زیادہ امیدوار کھڑے ہوئے، تو اس طرح نیویارک میں پاکستان مشن کو کنویسنگ میں کامیابی حاصل کرنے کا موقع ملا۔’

کیٹو انسٹی ٹیوٹ کی فیلو سحر خان کہتی ہیں ‘میں سمجھتی ہوں کہ یہ مجموعی طور پر اچھی بات ہے، پاکستان کو اپنے ملک میں انسانی حقوق کی مثبت پیش رفت کو اجاگر کرنے کا اچھا موقع ملا ہے۔ لیکن پاکستان کو ابھی بہت کام کرنا ہے کیونکہ اقلیتیوں کے خلاف اور عورتوں کے خلاف تشدد کو کم کرنا ہے۔’

سحر خان کہتی ہیں کہ ‘پاکستان اس وقت تک حقیقی معنوں میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا رکن بننے کا حق دار نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک یہ حدود آرڈینینس اور توہینِ مذہب کے قوانین کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں کر دیتا ہے۔’

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے چین، روس اور کیوبا کے اس کونسل کا رکن منتخب ہونے پر ردعمل میں کہا کہ ان کے منتخب ہونے سے امریکہ کا اس کونسل سے سنہ 2018 میں دستبردار ہونے کا فیصلہ درست ثابت ہوا ہے۔ امریکہ اس کونسل کا رکن نہیں ہے۔

ادھر اسرائیل کے اقوام متحدہ میں مستقبل مندوب گیلاد اردان نے کہا ہے کہ ‘انسانی حقوق کی کونسل شام، ایران اور شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی پامالی کو نظر انداز اور اسرائیل کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کرتی رہتی ہے۔ (حالیہ) انتخابات کے بعد انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے مزید ممالک اس میں شامل ہو گئے ہیں۔’

روس کی وزارتِ خارجہ نے جنرل اسمبلی کے 193 ووٹوں میں سے 158 ووٹ لے کر کونسل کا رکن منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ‘ہم برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ایک تعمیراتی کردار ادا کرنے کے منتظر ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp