رقص وجود و تہذیب کا ملاپ ہے


\"kathak\"ابلاغ اور اظہار کا جانا مانا ذریعہ زبان اور الفاظ ہیں لیکن زبان کی ابتدا سے پہلے گویا آواز سے الفاظ تک کے سفر میں ابلاغ و اظہار کا اہم ذریعہ اشارے کنایے، رموز و تلمیحات کو مانا جاتاہے۔ اشاروں کنایوں نے بھی ارتقاء کی منازل طے کی ہیں جب ان رموز و تلمیحات میں مناسبت اور مطابقت پیدا ہوئی تو توازن اور ردھم نے جنم لیا اور اشاروں کنایوں میں موجود یہ توازن اور ردھم بڑھتے بڑھتے رقص کی شکل اختیار کرتا گیا۔ رقص ابلاغ و اظہار کی حسین ترین شکل ہےاور کہا جاتا ہے کہ رقص کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ خود تاریخِ نوع انسانی۔

بالعموم رقص دنیا بھرکی ہر تہذیب اور ہر خطے میں ابتدائے آفزینش سے ہی موجود رہا ہے البتہ بالخصوص برصغیر میں رقص کی ابتدا اور ارتقاء پر نظر کی جائے تو ہمیں سب سے پہلے ایک کتاب کا حوالہ ملتا ہے۔

ناٹیا شاسترا (Natya Shastra)

قرین قیاس ہے کہ یہ کتاب 200 قبل مسیح یا 200 بعد از مسیح میں کہیں لکھی گئی ہے۔ یہ چھ ہزار ورسز اور چھتیس ابواب پر مشتمل ایک نایاب نسخہ ہے جو ناٹک، موسیقی اور رقص کے لئے کچھ معیار اور اصول و ضوابط طے کرتی ہے۔ اس کتاب کے لکھاری بھرت منی اس وقت کے مشہور موسیقی اور تھیٹر کے ماہر تھے جو نہ صرف ایک محقق تھے بلکہ انہوں نے ناٹک (ڈرامہ)، رقص اور موسیقی کے لئے جو اصول بھی وضع کئے ان پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ بھرت منی نے موسیقی کے لئے سات سر (scales) وضع کیے اور ناٹک کے لئے آٹھ راسا (form of expressions) طے کئے جن کے اندر فطرت انسانی سے جڑے سبھی جذبات کو سمو دیا۔

موسیقی کے سات سر یہ ہیں

سا۔ رے۔ گا۔ ما۔ پا۔ دھا۔ نی

انوپا پانڈے اپنی سکالرلی سٹڈی

 A Historical and Cultural Study of the Natyasastra of Bharata

میں ان آٹھ راسا (رسا) کو اس ترتیب سے لکھتی ہیں

سرینگرا، ہسیا، کروہنا، رودہرا، ویرا، بھیانکا، بھبھسا، ادھبتا

  1. Sringara (the Erotic – romance, love)

رومانویت

  1. Hasya (the comic – laugh, humor)

مزاح

  1. Karuna (the pathetic – compassion, sadness)

المیہ و حزنیہ

  1. Roudra (the furious – indignation, anger)

غضب و کرودھ

  1. Veera (the heroic – valor)

شجاعت و الوالعزم

  1. Bhayanaka (the terrible – fear, horror)

ہیبت و ہولناکی

  1. Bibhasa (the odious – disgust, aversion, repugnance)

کریہہ و نفرت انگیزی

  1. Adbhuta (the marvelous – wonder, astonishment, amazement)

نادر عجوبہ و حیرت انگیز

یوں تو برصغیر میں آٹھ بڑے کلاسیکل رقص مشہور ہیں

بھرت نائٹیم۔۔ اوڈیسی۔۔ مانی پوری۔۔۔ کچو پوڑی۔۔ کتھا کلی۔۔ موہنی اٹم۔۔ ستریہ اور کتھک

لیکن ان آٹھ راسا یا emotions کو جن دو رقص میں بھر پور طریقے سے پیش کیا جاتا رہا وہ بھرت نائٹیم اور کتھک ہیں۔

پھر ان دو میں بھی کتھک وہ واحد رقص ہے جسے موسٹ نیچرل یا فطری ڈانس فارم سمجھا جاتا ہے جس کے انگ یا اظہار ہماری روزمرہ کی چال ڈھال اور رویوں سے بہت میل کھاتے ہیں۔ یہ وہ واحد رقص ہے جس کا تعلق یو۔ پی یعنی اتر پردیش سے ہے۔ لفظ کتھک کتھا سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہانی یا قصہ اور جو فرد یہ کتھا سناتا ہے وہ کتھک یا کتھا کار کہلاتا ہے \”کتھا کہے سو کتھک کہلائے\”۔ کتھک تین پرفارمنگ آرٹ موسیقی، رقص اور ناٹک کا ایک نادر و نایاب مرکب و نتیجہ ہے۔ ان تینوں کے باہم ملاپ پر کتھک نے جنم لیا۔ روایتوں کی مانے اس کی ابتدا 500 قبل مسیح بتائی جاتی ہے۔۔ کتھک کی ابتدا بھی لوک رقص کی شکل میں ہوئی جب بستی بستی نگری نگری طائفے پھرتے اور لوک کہانیاں اور قصے بیان کیا کرتے۔ یہ رقاص کتھک یا کتھا کار کہلاتے تھے۔ وہ سماج کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک نہ صرف سفر کرتے بلکہ اپنے رقص کے ذریعے وہاں کے رہن سہن اور طور طریقے بھی بیان کرتے۔ یہ طائفے اپنے ہمراہ آلات موسیقی بھی رکھتے تھے۔ مندر کے تصور کے ساتھ یہ رقص مندر کے در و دیوار میں جا پہنچا جہاں اس نے ہندو مت کی دیو مالائی کتابوں رامائن اور مہابھارت پر مبنی قصے و کہانیاں پیش کیں لیکن اس کے ارتقا کا سفر ابھی یہاں تھما نہ تھا۔ مغل حکمرانوں کی آمد کے ساتھ یہ دربار میں پہنچا۔ Drid Williams دس لیکچرز ہر مشتمل اپنی کمپوزیشن

Anthropology and the Dance

میں کہتے ہیں کہ

 

“It should be remembered that the first Kathak dancers were, after all,Hindus who danced for Moghul overlords”

“Perhaps tatkar and tukras formed the bulk of these first dancers\’ performances.Gradually more and more images, then stories of Krishna and Radha crept in.”

)یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پہلے پہل کتھک رقاص ہندو ہوتے تھے جو مغل فرمانرواؤں کے سامنے اپنی کلا پیش کرتے تھے۔۔۔۔ شاید بعد میں \”تتکار\” اور \”ٹکرے\” ان شروع شروع کے رقاصوں کی کلا کا حصہ بن گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مزید تشبیہات اور رادھا اور کرشنا جیسی کتھاؤں نے کتھک میں اپنی جگہ بنا لی)

مغل دربار کے کلاکاروں میں اس کی نئی چھب نکلی اور اس میں کئی رنگ و انگ شامل ہوئے۔ ایرانی اور ترکی کے رقص سماں سے کئی خیال شامل کئے گئے۔ مثلاََ تتکار (foot work) ہستک (hand work) اور رقصِ سماں سے whirling یعنی چکر وغیرہ۔ پھر مغلیہ درباری و شاہی رنگ ڈھنگ کا بھی اثر اس نے قبول کیا اور نئے خیالات پیش کئے گئے جیسے آمد، اور عقیدت میں نمستے کی جگہ سلامی، خسرو، قوالی، تین تال، ٹھمری، ٹھاٹ، ٹکڑے اور ترانہ وغیرہ۔ رقاص و رقاصاؤں کے لباس و سنگھار میں بھی جدت و تبدیلیاں آئیں۔ پہلے ساڑھی اور گھاگرا چولی کا رواج تھا۔ دربار میں پشواز اور چوڑی دار آڑھا پا جامہ رواج ہوا۔

پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد ہوئی تو رقص کی حرمت اور مقام جاتا رہا۔ قریہ قریہ بستی بستی پھرنے والا کتھک مندر سے دربار اور دربار سے بازار آن پہنچا اور وہ رقاص و رقاصائیں جو کبھی بھگتی اور کبھی فنکاری کا استعارہ ہوا کرتے تھے انہیں انگریز بہادر نے Nautch Girls  کہہ کر پکارا۔

یہ وہ وقت تھا جب یہ فن سسک رہا تھا اور موت کے قریب تھا لیکن فنکار گھرانوں نے دل نہ چھوڑا بلکہ وہ اس فن کو اپنے گھروں کے اندر سکھانے لگے اور یوں گھرانوں کے تصور نے جنم لیا۔ یہیں سے تین بڑے گھرانے سامنے آئے جے پور گھرانہ، بنارس گھرانہ اور لکھنؤ گھرانہ۔ جے پور میں ٹکڑوں، حرکات، تتکار، چکر، ہستک جیسے تکنیکی معاملات پر کام کیا گیا۔ بنارس گنگا کے کنارے ہے تو اس گھرانے میں زیادہ زور ہندو مت کی دیو مالائی کہانیوں پر دیا گیا۔ خاص کر ٹھمریاں جو بول بنانے پر انحصار کرتیں۔ جب کہ لکھنؤ جو تہذیب و تمدن کا گڑھ بھی ہے اور گہوارہ بھی یہاں نزاکت، خیال، بیان، سنگھار، ادب و آداب اور رومانس پر زیادہ کام کیا گیا اور رادھا و کشن کی پریم کہانی بھی اس گھرانے کی خاصیت رہی۔ بلکہ حقیقی معنوں میں کتھا درشانے کی پرانی روایت کو زندہ رکھنے میں اس گھرانے کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستانی کتھک کے استاد جناب فصیح الرحمان صاحب فرماتے ہیں کہ پوآزادی کے بعد ایک اور گھرانے نے جنم لیا وہ تھا لاہور گھرانہ اور اس گھرانے کے منی مہاراج کتھک غلام حسین صاحب ہیں جو نوے کی دہائی میں سید نور صاحب کی پاکستانی فلم سرگم میں اپنے فن و ہنر کے جوہر دکھا جا چکے ہیں۔

اقبال فرماتے ہیں کہ

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرۂ خونِ جگر سِل کو بناتا ہے دل
خونِ جگر سے صدا سوز و سرور و سرود

مصوری کے رنگ و عکس، موسیقی سے سر و تال اور شاعری سے نغمگی و ترنم لے کر انہیں انسانی تاثرات و جذبات کے ذریعے پیش کیا جائے تو رقص کی شکل بنتی ہے۔ رقص نہ صرف فطری فن و ہنر کی تمثال سازی کرتا ہے بلکہ یہ فطرتِ انسانی کے پر پیچ و پیچیدہ احساسات و جذبات کی نقش نگاری بھی کرتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ رقص وجود و تہذیب کا ملاپ ہے، ماہئیت ہے، عرق ہے، نچوڑ ہے۔ کتھک وہ رقص ہے جس پر مختلف تہذیبوں کے رنگ چڑھے شاید یہی وجہ ہے کہ آج یہ آفاقی و ہمہ گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

According to philosophy, The fine amalgamation of body, brain and beyond (soul) is immanence that leads to transcendence through the journey of going beyond.

جسد، قلب اور روح کا سنگم و اختلاط ہی مظہر ہے (اندروں و بیروں یا خفی و سری ) گویا یہ نفوذ باہمی ہی نفوذ کٌلی ہے یہ ایسا مظہر ہےجس کی روشنی میں سفرِ ماورائیت کی نیت و سعی کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بصیرت و رفعت و ماورائیت مقدر ہوتی ہے جو تاحدِ نگاہ ہے، بے پایاں ہے اور مسلسل ہے۔ یہ خود سے خود تک کا سفر ہے۔ خود شناسی یا احساسِ ذات کی اس جہدِ و مسافرت کی کئی جہتیں، کئی راستے اور کئی جادۂ راہ ہیں اور انہیں سب میں ایک رقص بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments