وادی سون میں پراسرار قلعہ، ڈھلوان کا سفر اور اجنبی کتے


\"ejaz وادی سون میں ٹریکنگ کی دعوت ملتے ہی ہمیں خزاں میں بھی بہار دکھائی دینے لگتی ہے۔ پاؤں وادی سون کے پتھروں پر چلنے کو مچلنے لگتے ہیں۔ وادی سون میں ہماری ٹیم کی طرف سے یہ تیسری مہم ترتیب دی گئی تھی۔ ہمارا اصل مقصد وادی سون کے چند ایسے گوشوں کو سامنے لانا ہے جہاں سیاح کم ہی جاتے ہیں۔ عدنان بھائی نے خوشاب سے ہمیں ساتھ لیا۔ ان کے ہمراہ خوبرو، مسکراہٹیں بکھیرنے والا خوش باش دانش بٹ تھا جس کے چہرے مہرے سے شادابی اور توانائی چھلک رہی تھی۔ خوشاب سے نکلے تو حیرت سے وادی سون کی پہاڑیوں کو دیکھا جو صبح کے سورج کی روشنی میں یوں چمک رہی تھیں کہ اتنی دور سے بھی ایک ایک پہاڑی نمایاں تھی۔ ہماری منزل دادا گولڑہ نامی وہ مسجد و خانقاہ تھی جس کے مینار صاف موسم میں خوشاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ طویل عرصہ سے بارشیں نہ ہونے کے باوجود اتنا صاف موسم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ خوشاب سے دادا گولڑہ تک کا سفر خوش گپیوں میں ہی گذر گیا۔

وادی سون کے عشق میں مبتلا عدنان عالم اعوان ملکہ کوہسار کی خوب صورت گلی نتھیا گلی میں ایک ہفتہ گذار کر آئے تھے اور پھر بھی وادی سون جانے کو اتنے ہی بے تاب تھے جتنا کہ ہم مری پہنچنے کے بعد نتھیا گلی جانے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔ دادا گولڑہ پر برادر ارشد اعوان ہمارے انتظار میں تھے۔ گاڑیاں پارک کی گئیں۔ مہم جو حضرات کی تعداد گنی گئی تو پتا چلا کہ بہت سے احباب پرجوش وعدے کرنے کے باوجود وادی سون کی خوب صورتی دیکھنے کو نہیں پہنچ پائے۔ زیادہ اداسی اس لئے نہیں ہوئی کہ بہت پہلے ایک دوست نے بتایا تھا کہ فیس بکی حضرات وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے وعدے کوئی \”حدیث\” نہیں ہوتے اور جلدی توڑ دیے جاتے ہیں تو زیادہ امید مت رکھنا کہ لوگ اپنے آرام دہ ماحول کو چھوڑ کر وادی سون کے پتھروں پر چلنے کے لئے گھر سے نکلیں گے۔ تو برادر عدنان عالم اعوان نے پہلے سے طے شدہ ٹریک میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے دادا گولڑہ سے شمال کی طرف کی پہاڑیاں سر کرنے کا مشورہ دیا۔ اور ہم نے ان کے حکم پر لبیک کہا۔

\"14956646_1421923521152648_3051284732438911773_n\"کچھ ہی فاصلہ طے کیا کہ ایک گاؤں کے آثار دکھائی دیئے۔ کچے پکے مکانوں پر مشتمل اس گاؤں کو چپھڑیاں کہتے ہیں۔ یہاں سرکاری واٹر سپلائی کی ٹینکی بھی تھی اور ایک سرکاری سکول بھی ہے۔ حکومت ڈرتی ہے کہ اگر پانی اور تعلیم کی سہولیات دیہات تک نہ پہنچائیں تو یہ لوگ شہروں کی طرف آن پہنچیں گے جہاں کی آبادی پہلے ہی کافی سے بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ سڑکیں البتہ کچی ہیں۔ وہ اس لئے پکی نہیں کی جاتیں کہ یہ دیہاتی کہیں سچ مچ ہی شہر کو نہ نکل لیں۔ یہاں ہم ایک جگہ پہاڑوں سے نیچے کا منظر دیکھنے کے لئے رکے تو ایک نوجوان نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس کے والد صاحب بڑھاپے کے باوجود آمدہ موسم سرما میں جانوروں کے لئے کمرہ تیار کرنے میں مصروف تھے۔ ہم وہاں سے نکلے تو اونچائی پر کسی سیلولر کمپنی کا ٹاور دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے ٹاور کی طرف چلنے کی ٹھانی کہ زرا دیکھیں جا کر یہاں اس ٹاور کی نگرانی کون کرتا ہے۔ یہ فیصلہ اتنا خوشگوار نہ تھا۔ سفر شروع کرتے ہی ایک پتھریلے اور عمودی ٹریک سے واسطہ پڑ گیا تھا۔ رستے میں رکے تو ارشد اعوان نے اپنے بیک پیک سے ایک ڈبہ برآمد کیا اور ہمیں سفید تلوں والی ایک عدد ٹکی پیش کی۔ ایسے وقت میں یہ ایک عمدہ پیش کش تھی جس کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ عدنان بھائی اور دانش بٹ نے ہمارے ساتھ رکنے کی بجائے تھوڑا مزید چلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور ایک موڑ کاٹ کر نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ ہم نے چلنے میں جلدی کہ کہیں وہ رستہ نہ بھٹک جائیں گے۔ اوپر پہنچے تو ایک آدمی ان کا رستہ روکے کھڑا تھا۔ زیادہ پریشانی اس بات پر ہوئی کہ اس کے ہاتھ میں ایک تیز کلہاڑی تھی۔ ہم نے ایک زور دار سلام داغا کہ اس کا دھیان عدنان بھائی کی طرف سے ہٹ جائے۔ تنہائی میں رہنے والوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کہ کبھی کبھی اجنبی کو دشمن سمجھتے ہوئے وار \"15181129_1369732829726692_6291249852978901578_n\"پہلے کرتے ہیں اور تعارف بعد میں پوچھتے ہیں اگر بندہ بچ گیا ہو تو۔ بعد میں عدنان بھائی نے ہمیں کہا کہ جناب آپ کلہاڑی دیکھ کر ڈر گئے تھےاب ہم کیا کہتے سو چپ رہے ہنس دیئے منظور تھا پردہ تیرا۔ ۔ پتا چلا کہ یہ بندہ تو اسی ٹاور پر گارڈ ہے ٹائم پاس کے لئے چند بکریاں بھی پالی ہوئی ہیں۔ گارڈ صاحب نے یہ دیکھ کر اب یہ زیادہ بندے ہو گئے ہیں ہم سے خوشگوار انداز میں گفتگو شروع کر دی۔ باتوں باتوں میں ہم ٹاور تک پہنچ گئے۔ یہ ٹاور بہت نمایاں جگہ پر ہے اور کافی دور سے دکھائی دیتا ہے۔ یہاں سے دوسری طرف دیکھا اور دل خوش ہو گیا۔ وادی سون کا حسن دور دور تک دکھائی دے رہا تھا۔ ہمارا آبائی شہر کھوڑہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی دے رہا تھا۔ مشرق کی جانب وادی کے پراسرار قلعے تلاجھا کے آثار نمایاں تھے۔ حتیٰ کہ دور بہت دور خوشاب سے بھی پرے دریائے جہلم کے پانی بھی چمک رہے تھے۔ کچھ وقت گزار کر پہاڑ کے دوسری طرف اترنے کی ٹھانی۔ گارڈ نے بتایا کہ خود کشی کا ارادہ ہو تو یہیں سے چھلانگ لگا لیں لیکن اگر زندہ سلامت پہاڑ سے اترنا ہے تو واپس جائیں اور دو تین موڑ نیچے اتر کر پھر دوسری جانب کو اتر جائیں۔ چونکہ ہم میں سے کسی کا بھی خود کشی کا ارادہ نہیں تھا تو ہم واپس چل پڑے۔ گارڈ صاحب اور ان کی بکریاں ہمیں خدا حافظ کہنے اور رستہ دکھانے کافی نیچے تک ہمارے ساتھ رہیں۔ دونوں کا بے حد شکریہ۔ نیچے ایک وسیع ٹیرس پھیلا ہوا تھا۔ وادی سون کے باسیوں کی عادت رہی ہے کہ وہ جہاں بھی زمین کا ہموار ٹکڑا دیکھتے ہیں اس کو مزید ہموار کر کے ہل چلا دیتے ہیں بیج ڈال دیتے ہیں اور پھر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ ہماری فصل ہری کر دے۔\"15219559_1421878951157105_1748144721470387033_n\"

وادی سون میں پچھلے سال یہ ہوا کہ بارش برسانے والے فرشتے سے حساب کتاب میں کچھ غلطی ہو گئی اور اس نے دو برس کی بارشوں کا کوٹہ ایک ہی سال میں پورا کر دیا۔ جھیلیں بھر گئیں۔ کھیتوں میں پانی کھڑا ہو گیا۔ گندم کی فصل تک کاشت نہیں ہو پائی۔ اور جگہ جگہ سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ اس غلطی کاازالہ یوں ہوا کہ اس سال بارشیں نہیں ہوئیں۔ اور بارشیں نہ ہونے سے وادی میں خشک سالی چھائی ہوئی ہے کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ گندم کاشت نہیں کی جا سکی۔ جہاں ٹیوب ویل لگے ہوئے تھے وہاں سبزیاں کاشت کی جا رہی ہیں۔ اور جہاں پانی دستیاب نہیں وہاں لوگ دعائیں کئے جا رہے ہیں۔

ہم نے یہ وسیع و عریض ٹیرس عبور کیا تو سامنے ایک زمانہ قدیم کی پتھروں سے بنی عمارت کا کھنڈر دیکھا۔ پرانے زمانے کے لوگوں کے پاس وقت بہت زیادہ ہوا کرتا تھا تو وہ پتھر تراشتے رہتے تھے۔ جب مناسب تعداد میں پتھر تیار ہوجاتے تو وہ ایک کمرہ تعمیر کر لیتے تھے۔ شائد یہ بھی ایسا ہی ایک کمرہ تھا۔ وہاں سے چلے تو ایک وسیع و عریض وادی دکھائی دینے لگی۔ کٹی پھٹی سی، جھاڑیوں سے لدی پھندی، خشک سالی کا مقابلہ کرتے ہوئے سرسبز درخت اور جھاڑیاں۔ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ یہاں طویل عرصے سے بارش نہیں ہوئی۔ گپ شپ لگاتے، وادی کے مناظر کو کیمروں میں قید کرتے ہم یونہی چلتے چلے گئے۔ ایک پگڈنڈی سی دکھائی دی تو ہم اسی پر چل نکلے کہ یہ کہیں نہ کہیں ہمیں لے ہی جائے گی۔ کہیں اوپر پہاڑی پر چڑھتے ہوئے تو کہیں ڈھلوان پر ٹیڑھے میڑھے رستوں پر چلتے ہوئے بالآخر ہمیں ایک طرف چند مکان دکھائی دیئے۔ ایک مکان کو کافی خوب صورتی سے پینٹ کیا گیا تھا۔ جب ہم ان مکانات کے قریب پہنچے تو چند کتوں نے خوفناک انداز میں بھونک کر ہمیں وارننگ دی کہ بلا اجازت اس طرف آنا منع ہے۔ تو ہم نے بہتر سمجھا کہ ہم جنگلوں میں ہی آوارہ گردی کرتے رہیں۔ ہم مکانات کے پاس سے گزرتے ہوئے مزید مشرق کی جانب چلے۔ ایک قریبی پہاڑی پر چڑھے تو دل خوش ہو گیا۔\"15170913_1369733103059998_876530828175088743_n\"

ہمارے بالکل سامنے تلاجھا کا قلعہ تھا۔ تلاجھا کا قلعہ اپنے اندر جو اسرار سموئے ہوئے ہے ابھی تک یہ اسرار کسی پر نہیں کھل پائے۔ قلعے تک جانے کا رستہ انتہائی تنگ اور پراسرار ہے جہاں عام آدمی کا پہنچنا ناممکنات میں سے ہے۔ ایک عام روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب چنگیز خانی فوج جلال الدین خوارزم شاہ کا پیچھا کرتی ہوئی ہندوستان میں آئی تھی تو کچھ عرصہ کے لئے خوارزم شاہ نے اس قلعے میں قیام کیا تھا۔ یہاں کھنڈرات میں ایک مسجد کی محراب کے آثار ملے ہیں اور کئی قبریں بھی ہیں۔ وہاں پر عدنان بھائی نے قلعے کے بارے میں کافی عمدہ معلومات فراہم کیں جو بٹ صاحب نے اپنے وڈیو کیمرے میں ریکارڈ کر لیں۔ یہاں سے کہیں اور جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ موسم بھی بہت خوشگوار ہو رہا تھا۔ لیکن منظر جتنا بھی خوب صورت ہو آنکھوں میں قید ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور اگلے منظر سیاح کو اپنی طرف بلاتے ہیں جو جانا تو ہوتا ہے۔ سو ہم بھی وہاں سے واپس ہوئے۔ اتنا چلنے کے بعد بھوک بھی ستا رہی تھی تو اپنے اپنے بیک پیک ٹٹولے گئے۔ ہم تو ہمیشہ سے ایسے تکلفات سے آزاد رہے ہیں کہ ہمارے دوست ہمیشہ ہمارا خیال رکھتے رہے ہیں۔ تو طے کیا گیا کہ کہیں گھنی چھاوں ملے تو کھانا کھایا جائے۔ واپس انہی مکانات کے پاس سے گزرے تو اس بار کتے نہیں بھونکے البتہ کوئی نہ کوئی ہمیں چھپ کے دیکھتا ضرور تھا۔

ایک مکان کے پاس ہی ایک درخت کی گھنی چھاوں دیکھی تو یہیں رک جانے کو جی چاہا۔ ایک نوجوان نے ہمارا استقبال کیا۔ پہلے تو ہمیں ٹھنڈا پانی پلایا۔ جب پوچھا کہ پانی کہاں سے لاتے ہو تو بتایا کہ نیچے کٹھوائی سے پانی لایا جاتا ہے اور کٹھوائی وہاں سے دور اور بہت زیادہ گہرائی میں ہے تو یہاں پانی لانا آسان نہ تھا اور ان کی سب سے بڑی مہمان نوازی پانی پلانا ہی سمجھنا چاہئے۔ اس کے بعد وہ ہمارے لئے دو چارپائیاں نکال لایا۔ ایک بزرگ بھی اندر سے نکل آئے۔ تعارف ہوا۔ اس جگہ کو ڈھوک بارہ کہا جاتا ہے۔ کھوڑہ کے چند لوگوں کے نام لئے، ہماری خوش قسمتی کہ ہم انہیں جانتے تھے۔ بھرم رہ گیا۔ یہاں رہنا عام آدمی کا کام نہیں کہ وہاں پر پینے کا پانی بھی کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے لانا پڑتا ہے۔ تو دوپہر کی چھاؤں میں اپنے اپنے ٹفن نکالے گئے۔ کھانا کھایا گیا۔ بٹ صاحب کیلے لائے تھے وہ ہم نے اس ڈیرے \"15170943_1369732459726729_8377574710838586136_n\"کے مکین بچوں کو دے دیئے۔ نمکو بھی انہیں دی۔ وہاں سے نکلے تو دھوپ ڈھل رہی تھی۔ ایک تالاب کے پاس سے گزرے۔ تالاب میں اب بھی اتنا پانی تھا کہ جانوروں کے پینے کے لئے دستیاب تھا۔ ایک راستہ سیدھا جا رہا تھا مگر ہم سیدھے رستوں کے سیلانی تھے ہی نہیں تو عدنان بھائی نے ہمیں اس راہ پر لگایا جو وہ اس نوجوان سے سمجھ کر آئے تھے۔ اور یہ رستہ کیا تھا جھاڑیوں کے بیچ تنگ سا رستہ تھا اور بس پتھر ہی پتھر تھے۔ ایک جگہ ہم آرام کرنے کو رکے۔ ہم تو بیٹھ ہی گئے مگر عدنان بھائی لیٹ گئے۔ حالانکہ یہاں اتنے پتھر تھے کہ بیٹھنا بھی مشکل تھا۔ چند جانور ہمارے پاس سے گزرے ان کے پیچھے پیچھے دو نوجوان لڑکیاں تھیں۔ جو بہت بے نیازی سے ہمارے پاس سے گزر گئیں۔ وادی سون کی یہی خوب صورتی اسے دیگر علاقوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہاں پر لڑکیا ں خود کو بہت محفوظ سمجھتی ہیں اور یہاں کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا جو علاقے کو بدنما کرتا ہو۔ جب وہ کافی فاصلے پر پہنچ گئیں تو ہمارا رہنما بھی اٹھ بیٹھا۔ ہمیں خوشاب کا پتیسا پیش کیا۔ وہ کھانے کے بعد ہم پھر سے چل نکلے۔ پہاڑوں کے بیچ یہ ایک تنگ سا رستہ تھا جو کافی گھوم کر کہیں جا رہا تھا اور ہم اس پر چلے جا رہے تھے۔ وہ جانور اور وہ لڑکیاں کہیں غائب ہو چکے تھے۔ کافی چلنے کے بعد ہم ایک کھلی وسیع وادی میں آن پہنچے۔ کچھ جانور ویران کھیتوں میں منہ مار رہے تھے۔ ایک آدمی دکھائی دیا۔ پھر ایک لڑکا دکھائی دیا جو ہمیں بہت حیران ہو کر دیکھ رہا تھا۔ فوراً بھاگ کر ہمارے قریب آ گیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ ہم بھی اس جیسے انسان ہی ہیں تو پھر اس نے ہم سے ہاتھ ملایا۔ یہ ایک وسیع ٹیرس تھا۔ دور دور تک کھیت ہی کھیت دکھائی دے رہے تھے۔

ہم نے اس سے رستہ پوچھا تو اس نے وہی رستہ بتایا جہاں سے ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا جب اسے بتایا کہ ہم دوسری طرف جانا چاہتے ہیں\"15284125_1421844254493908_7163367066809152802_n\" تو وہ سوچ میں پڑ گیا اس کے خیال میں وہ رستہ کافی مشکل تھا اور ہم اس رستے سے نہیں اتر پائیں گے۔ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے ساتھ چلے گا اور ہمیں رستہ دکھائے گا۔ وہ ایک نیک لڑکا ہے اور اس میں سیاحوں سے ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اگر وہ ساتھ نہ ہوتا تو ہم یقیناً بھٹک گئے ہوتے۔ یہاں اونچائی سے ارد گرد کی وادیاں بالکل صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ موسم ابھی بھی ہمارا ساتھ دے رہا تھا۔ یہاں سے ایک تنگ پگڈنڈی پر ہم چلنا شروع ہوئے جو ہمیں تہذیب و تمدن کی دنیا کی طرف لے جانے والی تھی۔ میرا خیال ہے کسی ٹریکر کے لئے سب سے تکلیف دہ سفر واپسی کا سفر ہوتا ہے۔ چند شاندار نظارے دیکھ لینے کے بعد واپس اسی شورشرابے کی دنیا میں جانا اس کے اذیت ناک ہوتا ہو گا۔ یہی ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ واپسی کا سفر کافی دلچسپ رہا خود کو سنبھالنا کافی مشکل ہو جاتا۔ خوشاب جانے والی روڈ دکھائی دے رہی تھی۔ بالآخر ہم کٹھوائی ریسٹ ہاوس کے قریب پہنچ گئے۔ جو پہلا ہوٹل نظر آیا وہیں ڈھیر ہو گئے۔ اس سے اچھی سی چائے کی فرمائش کی۔ عدنان بھائی نے اسلام آباد جانا تھا انہوں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے گٹ مٹ کی ان کی اور ارشد بھائی کی گاڑیاں چند کلومیٹر دور دادا گولڑہ پر کھڑی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ چائے پیئں اور ہم ابھی آئے۔ اور ہمیں اس وقت چائے سے زیادہ کسی اور شے کی طلب نہ تھی۔ جلدہی گاڑیاں آ گئیں۔ عدنان بھائی رخصت ہو گئے۔ ارشد بھائی ہماری کوچ آنے تک ہمارے پاس بیٹھے رہے۔ ہم زیادہ وقت خاموش رہے۔ ٹریک کی دلچسپ یادیں ہمارے ساتھ تھیں۔ دانش بٹ نے بہت زندہ دلی سے ہمارا ساتھ دیا کسی جگہ بھی تھکاوٹ کا احساس نہیں دلایا۔ اور یوں ہماری اس تیسری شاندار مہم کا اختتام ہوا۔ یہ ایک شاندار مہم تھی۔ ہم نے وادی سون کے چند ایسے گوشوں کو دریافت کیا جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل تھیں۔ یہی ہمارا مقصد تھا انشاء اللہ بہت جلد کسی نئے ٹریک پر چلیں گے۔ آپ کی نظر میں ایسا کوئی ٹریک ہو تو ضرور بتایئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments