گوجرانوالہ: ڈھول کی تھاپ اور سیاسی ترانوں کی گونج میں حزبِ اختلاف کا حکومت مخالف جلسہ


مریم نواز
'پہلوانوں کے شہر' گوجرانوالہ میں جمعہ کے روز پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ میلے کا سا سماں پیش کر رہا تھا۔

شہر کی مرکزی شاہراہ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع جناح سٹیڈیم میں قائم جلسہ گاہ تک جانے والی سڑکوں کو کنٹینر رکھ کر بند کیا گیا تھا اس لیے شرکا کو وہاں تک پہنچنے کے لیے یا تو ایک طویل چکر کاٹ کر عقبی گیٹ تک پہنچنا تھا۔

یا پھر دوسرا راستہ سیدھا تھا مگر اس کے لیے ریلوے لائن عبور کرنا تھی جو زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ اس لیے زیادہ تر عوام وہیں سے داخل ہوئے۔ ریلوے لائن عبور کرنے پر سامنے ڈھول والے کھڑے تھے۔ جو توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتا تھا وہ ان کی خدمات لے سکتا تھا۔

وہ تقریباً آدھ کلومیٹر دور واقع سٹیڈیم کے گیٹ تک انھیں ڈھول کی تھاپ پر چھوڑ کر آتے تھے۔ ورنہ راستے میں رک کر جوس کی دکانوں اور کھانے پینے کی اشیا کے اسٹال پر بھی رکا جا سکتا تھا۔ لیکن سٹیڈیم کے گیٹ پر پہنچ کر منظر یکسر بدل گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جنوری سے بہت پہلے کام ختم ہوجائے گا: مریم نواز

عاصمہ شیرازی کا کالم: غلطی کہاں ہوئی؟

نواز شریف کے جنرل قمر باجوہ پر ن لیگ حکومت کو ’رخصت‘ کرانے، عمران خان حکومت کے لیے ’جوڑ توڑ‘ کرنے کے الزامات

جلسے کے شرکا

لوگوں کی لمبی قطاریں دوپہر ہی سے بننا شروع ہو گئیں تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ مزید طویل ہوتی چلی گئیں۔ ان میں زیادہ تر افراد نے پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔

شام تک ان میں جمیعت علما اسلام (ف) عوامی نیشنل پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور دیگر کے پرچم بھی شامل ہو چکے تھے۔ لوگوں کو واک تھرو گیٹ سے گزار کر سٹیڈیم میں بھیجا جا رہا تھا اور پولیس یہ یقینی بنا رہی تھی کہ کم از کم وہاں سے گزرنے والے ہر شخص نے ماسک پہنا ہو۔

جو لوگ ماسک ساتھ نہیں لائے تھے انھیں سٹیڈیم کے باہر موجود ماسک بیچنے والوں سے خریدنے پڑے۔ حکومت نے سٹیڈیم میں جلسے کی اجازت کو کورونا کے حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد سے مشروط کیا تھا۔

شام کے ڈھلتے سائے کے ساتھ سٹیڈیم کے اندر جگہ بھرنے لگی تھی۔ جناح سٹیڈیم بنیادی طور پر کرکٹ کا گراونڈ ہے جس میں شائقین کے بیٹھنے کے لیے سٹینڈز بنے ہوئے ہیں۔ جلسے کا سٹیج وی آئی پی پویلین کی طرف لگایا گیا تھا جبکہ پنڈال اس کے عین سامنے بنایا گیا تھا۔

نواز شریف

تماشائیوں کے سٹینڈ کے اوپر دائرے میں پی ڈی ایم کے قائدین کی قدِ آدم تصاویر کھڑی کی گئیں تھیں اور سپیکر سے اتحاد میں شامل جماعتوں کے ترانے بجائے جا رہے تھے۔

سٹیڈیم کے اندر ابتدا ہی سے جو سوال سب سے زیادہ گردش کرتا سنائی دیا وہ یہی تھا کہ ‘کتنے لوگ ہوں گے؟’

ہر کسی کا اپنا اپنا جواب تھا۔ ن لیگ اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان ‘اپنے اندازے کے مطابق چالیس سے پچاس ہزار لوگ بتاتے تھے۔’ کوئی تو لاکھوں میں چلا جاتا تھا۔ گوجرانوالہ کو نون لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور توقع کی جا رہی تھی کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جلسے میں دیکھنےکو ملے گی۔

شرکا

ایسا ہوا بھی، تاہم اس نوعیت کے سیاسی جلسوں میں ایسے مقامات پر لوگوں کی تعداد کا بالکل درست اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ سٹیڈیم مکمل طور پر بھر چکا تھا اور باہر بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی تو غلط نہ ہو گا۔

جس وقت تک نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز کا قافلہ قریباً سات گھنٹے کے سفر کے بعد پہنچا، پنڈال تقریباً پورا بھر چکا تھا۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے جن کے لیے جگہیں مختص کی گئیں تھیں۔

سٹیڈیم کے باہر بھی لوگ موجود تھے جن کے لیے ایک بڑی سکرین مرکزی گیٹ کے باہر بھی آویزاں کی گئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لالہ موسٰی سے قافلہ لے کر جب پنڈال میں پہنچے تو پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی طرف سے تقاریر کا سلسلہ جاری تھا۔

تاہم شرکا میں زیادہ جوش و خروش اس وقت دیکھنے میں آیا جب نون لیگ کے قائد نواز شریف سکرینوں پر دکھائی دیے اور بتایا گیا کہ وہ جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہو چکے ہیں۔ چند تقاریر کے بعد جمیعت علما اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان کے پہنچنے کا انتظار کیا گیا تاہم ان کی آمد سے چند لمحے قبل نواز شریف نے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔

نواز شریف نے شرکا کو براہِ راست مخاطب کر کے تقریر کا آغاز کیا اور وہ نعروں سے ان کا جواب دیتے رہے۔ گوجرانوالہ کے علاقے بھگوان پورہ سے آئے ثاقب فرید بھی ان میں شامل تھے۔ وہ حجام کی دکان چلاتے ہیں اور اپنے طور پر جلسہ دیکھنے کے لیے آئے تھے۔

جلسے کے شرکا

مشکل حالات

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ جلسے میں پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو سننے کے لیے آئے تھے۔ 'جلسے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جو باتیں کر رہے ہیں پتہ نہیں وہ پوری ہوں گی یا نہیں، لیکن عوام کے لیے حالات تو مشکل ہیں اس وقت۔'

ثاقب فرید کا کہنا تھا کہ گذشتہ ایک برس میں ان کے کاروبار پر یوں فرق پڑا ہے کہ ‘منافع کم اور اخراجات پر خرچ بڑھ گیا ہے۔ ہم دکان کا جو سامان پہلے خریدنے جاتے تھے تو جہاں پندرہ ہزار روپے خرچ ہوتے تھے وہیں اب 30 ہزار خرچ ہوتے ہیں۔’

دیگر رہنماؤں کی طرح نواز شریف اور ان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ملک میں بڑھتی مہنگائی کا ذکر کیا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا۔

جلسے ہی میں شریک گوجرانولہ کے رہائشی رضوان محمود جو کہ پرائویٹ ٹیچر ہیں، انھوں نے ان کی باتوں سے اتفاق کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ‘پہلے پانچ سو روپے لے کر نکلو تو گھر کی سبزی وغیرہ آرام سے خریدی جا سکتی تھی مگر اب بمشکل ایک دو چیزیں ہی خرید سکتے ہیں۔’

مولانا فضل الرحمان

رضوان محمود کے مطابق ان کے گھر کا بجلی کا بل جہاں پہلے 1500 روپے آتا تھا وہیں آج 7000 روپے آتا ہے۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں بجلی مہنگی ہونے کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ تاہم انھوں نے زیادہ زور اس پر دیا کہ 'عوام کے ووٹ کو غیر آئینی طریقہ کار سے چھینا نہیں جانا چاہیے۔'

نواز شریف نے شرکا اور ‘گوجرانوالہ کے عوام’ کو مخاطب کر کے ان سے اس بات کا وعدہ بھی لیا کہ وہ پی ڈی ایم کی اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے۔

رضوان محمود کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ مشکل باتیں عوام کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ عوام کو سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ مہنگائی کم کی جائے اور بجلی سستی کی جائے۔’

سٹیج

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اگر ایسا نہیں کر پا رہی تو 'کسی کو تو اس خلا کو پر کرنا ہے۔ یہ لوگ (پی ڈی ایم رہنما) باتیں تو اچھی کر رہے ہیں،'

حافظ شہباز اوکاڑہ سے اپنے دیگر چار دوستوں کے ہمراہ جلسہ دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے ایک سال قبل تعلیم مکمل کی تھی اور تب سے نوکری کی تلاش میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ‘نواز شریف کو سننے اور دیکھنے کے لیے آئے تھے حزبِ اختلاف کا جلسہ کتنا بڑا ہوتا ہے اور اس میں کیا ہو گا۔’ ان کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان کھیتی باڑی سے منسلک ہے اور گذشتہ دو تین برس میں کاشکاری میں نقصان ہو رہا تھا۔

‘اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور گزارہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مگر یہ سب (رہنما) باتیں تو ایسی ہی کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کچھ کر کے بھی دکھاتے ہیں یا نہیں۔’

نواز شریف کی تقریر کافی دیر جاری رہی اور ان کے بعد مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے بھی تقاریر کیں تاہم نواز شریف کے خطاب کے بعد جلسے کے شرکا کا انخلا شروع ہو چکا تھا۔

جب تک آخری خطاب اختتام پذیر ہوا تو زیادہ تر عوام جلسہ گاہ سے جا چکے تھے۔ سٹیڈیم کے باہر ڈھول والے بھی دیکھنے کو نہیں ملے تاہم کھانے پینے کے اشیا کی دکانیں اور جوس کے سٹال بدستور کھلے تھے۔ رات کے تیسرے پہر گوجرانوالہ کا یہ علاقہ ابھی جاگ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp