ماہی گیروں کی کشتی ریلی


کراچی والے جانتے ہیں کہ اکتوبرمیں یہاں سخت گرمی پڑتی ہے اور اس گرمی میں بوٹ (کشتی) ریلی میں شرکت! لیکن بات وہی پرانی ہے کہ جب کو ہ ندا سے صدا آتی ہے توآپ رک نہیں سکتے، خود پر اختیار نہیں رہتا۔ ریگل چوک اور پریس کلب اور آرٹس کونسل سے نکلنے والی ریلیوں میں تو ہم نے بارہا شرکت کی ہے لیکن سمندر میں کشتییوں میں بیٹھ کر ریلی نکالنے کا ہمارا یہ پہلا تجربہ تھا۔ کچھ بے چینی بھی تھی اور تھوڑا سا ڈر بھی لگ رہا تھا۔

فرحت نے رات کو واٹس ایپ کر دیا تھا کہ اس کی طبعیت خراب ہے اور وہ نہیں جا سکے گی۔ ہم نے حسب سابق اس کاپیغام نہیں پڑھا تھا، اس لئے صبح اس کے گھر پہنچ کر ہی یہ انکشاف ہوا۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ ابراہیم حیدری تک ہمارے ساتھ جائے گی اور ہمیں کشتی میں سوار کروا کے واپس آ جائے گی۔ وہ ڈرائیور کو بلانے گئی تو ہم نے کرامت علی کو فون کیا، معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت بھی خراب ہے اور وہ بھی نہیں جا پائیں گے، یک شد نہ دو شد۔

اب لوگ لاکھ ہمیں بہادر کہیں مگر ہمارا پرانا مسئلہ ہے کہ ہم رفقائے کار اور دوستوں کے بغیر کہیں بھی جاتے ہوئے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ فرحت ہمیں ماہی گیر ا یکٹوسٹ فاطمہ کے گھر لے گئی۔ خواتین کو ان کے گھر ہی جمع ہونا تھا۔ اس وقت تک صرف پی پی کی ساجدہ میر وہاں موجود تھیں، بقول ان کے فاطمہ کا گھر ان کا میکہ ہے۔ دوسری خواتین کے پہنچنے کا انتظار کرنا تھا، اس لئے باتیں شروع ہو گئیں، چائے کا دور چلا۔ فاطمہ نے بتایاکہ انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔

وہ تھر پارکر سے سوسی کپڑے پر طلے کے کام والی شلواریں لا کر اپنی کمیونٹی میں بیچتی ہیں، چنانچہ ہم نے بھی اپنی بیٹی اور اپنے لئے ایک ایک شلوار کا کپڑا خرید لیا۔ اب آپ جانیں کہ اگر سامنے سندھ کی خاص سوغات یعنی سوسی کا کپڑا آ جائے تو آپ خریدنے سے باز تو نہیں رہ سکتے۔ بھابھی کے نندوں پر ظلم اور ماں کا اکلوتے بیٹے کا ساتھ دینے کی کہانی سنی۔ اب طاہرہ کاظمی تو وہاں موجود نہیں تھیں جو انہیں سمجھاتیں کہ ایسی بھابھیاں دراصل پدرسری نظام کا کل پرزہ بن چکی ہوتی ہیں۔ بہر حال ہم نے متاثرہ نند کو اپنے حق کے حصول کے لئے مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا اور کچھ وکلا کے نام بتائے۔

فاطمہ فون پر نمبر ملائے جا رہی تھیں۔ ”سیاسی عورتیں“ کی مونیزہ راستے میں تھیں مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا چنانچہ فاطمہ کے بھائی کی رہنمائی میں ہم جیٹی جا پہنچے۔ لوگ کشتیوں میں سوار ہو چکے تھے، سامنے کوئی جانی پہچانی شکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ اچانک کسی نے ہمارا نام لے کر پکارا۔ دیکھا تو جی ٹی وی چینل کی ثنا تھیں جتنی خوشی ہمیں ایک شناسا شکل دیکھ کر ہوئی اتنی ہی خوش وہ بھی نظر آئیں۔ ’بس آپ میڈیا والی لانچ میں آ جائیں‘ اور ساتھ ہی اپنے نوجوان کیمرا مینوں کو ہمارا دھیان رکھنے کی ہدایت بھی کر دی۔

آخر کو ہم ٹھہرے سینئر سٹیزن۔ فرحت ہمیں ثنا کے سپرد کر کے رخصت ہوئیں۔ قوم پرست تنظیموں اور پیپلز پارٹی کے کارکن اور رہنما سول سوسائٹی کے چیدہ چیدہ لوگوں کے ساتھ الگ الگ لانچوں میں موجود تھے۔ سول سوسائٹی کے لوگوں کی اکثریت والی لانچ ہمیں بیچ سمند پہنچنے کے بعد نظر آئی۔ اس میں ایک لوک گانے کی دھن پر ایک ادھیڑ عمر عورت رقص کر رہی تھی۔ خضر اور نغمہ تصویریں اتار رہے تھے۔ ہم نے نغمہ کو آواز دی لیکن سمندری ہواؤں کے شور میں ہماری آواز کہاں اس تک پہنچتی۔

اس پر جیو کی کشمالہ ہماری مدد کو آئیں، انہوں نے زور زور سے آوازیں دیں تو ساتھیوں کی ہم پر نظر پڑی۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر ٹیپو بھی تھے۔ پہلے جزیرے کے پاس ایک بڑی سی لانچ میں بندوق بردار رینجرز کھڑے تھے، ہمیں وہاں اترنے کی اجازت نہیں ملی۔ اس دوران کشتیوں میں ہی لنچ کھلایا جا چکا تھا۔ ہماری کشتی کی خواتین میں سے کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا۔ ہم نے میڈیا والوں کے نمکو کے ایک پیکٹ اور دو کیلوں پر گزارا کیا۔

خیر اجازت نہ ملنے پر ہم اگلے جزیرے بھنڈار کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جب وہاں پہنچے تو پانی اتر چکا تھا اور وہاں پہنچنا ممکن نہیں رہا تھا چنانچہ واپسی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ جلسہ تو ہوا نہیں چنانچہ میڈیا والوں نے اپنی کشتی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے انٹرویوز اور سمندرکی ویڈیو گرافی پر ہی اکتفا کیا۔ واپس پہنچے تو وہاں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا۔ پانی نیچے جا چکا تھا اور ہمیں پتھروں کی دیوا پر چڑھ کر ساحل پر اترنا تھاجو کم از کم ہمارے لئے تو ممکن نہیں تھا۔ ایوب شیخ اور رفیق چانڈیو نے اوپر پہنچنے کے بعد ہمیں باقاعدہ کھینچ کر ساحل پر پہنچایا۔ یہ اور بات کہ اس عمل میں ہماری ایک ٹانگ خاص طور پرگھٹنا پتھروں کے ساتھ رگڑا گیا اور ہلکا سا چھل گیا لیکن۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔

اگر آپ نے ابھی تک اخباروں میں نہیں پڑھا تو آپ ضرور پوچھیں گے کہ آخر جزیروں تک جانے کا کشٹ کیوں اٹھایا گیا۔ بھنڈار یا بنڈال اور ڈنگی نامی جزیرے آئینی طور پر سندھ کی ملکیت ہیں جنہیں وفاق نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اپنی ملکیت میں لے لیا ہے۔ مشرف کے زمانے سے ہی ان جزیروں پر ہانگ کانگ جیسا شہر بسا نے کا منصوبہ بن رہا تھا۔ سندھ کے عوام درج ذیل وجوہات کی بنا پر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اول تویوں ماہی گیروں کی روزی ختم ہو جائے گی، پھر وہ یہاں مچھلیاں نہیں پکڑ سکیں گے، دوسرے Mangrovesکے جنگلات ختم ہو جائیں گے، قدرتی آفات سے بچاؤ ممکن نہیں ہو گا اور ماحولیات پر منفی اثر پڑے گا، تیسرے، کراچی میں ہی پینے کے پانی کا بحران رہتا ہے، نئے شہر کے لئے پینے کا پانی کہاں سے آئے گا، یہی بات انفرا اسٹرکچر اور دیگر وسائل کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ آئینی اور قانونی لحاظ سے بھی ان جزائر کے بارے میں فیصلہ سندھ کی حکومت کو کرنا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے خاص طور پر شہر بسانے جیسے بڑے منصوبے سے پہلے عوام دوست اربن پلانرز اور غریب پرور ماہرین اقتصادیات سے مشاورت ضروری ہے۔ کسی بھی اقدام سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ غریب شہری اس سے کس طرح متاثر ہوں گے اور ترقی کے نام پر اگر انہیں بے روزگار یا بے دخل کیا جا رہا ہے تو حکومت کیا متبادل فراہم کر رہی ہے۔ اگر آپ بغیر کوئی متبادل فراہم کیے لوگوں کو بے دخل اور بے روزگار کرتے رہیں گے تو احتجاج تو ہو گا، مزاحمت تو کی جائے گی، تحریک تو چلے گی۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

جہاں تک وفاق اور صوبوں کے اختیارات کا تعلق ہے، ہم ہمیشہ سے Devolution of Power اختیارات کی اوپر سے نیچے منتقلی کے حق میں رہے ہیں۔ وفاق کو صوبوں کو اور صوبوں کو بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق اختیارات دینے چاہئیں لیکن پاکستان میں شروع سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ وفاق سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے، دوسری طرف صوبے اپنے لئے تو اختیارات اور وسائل مانگتے ہیں لیکن بلدیاتی اداروں کو وسائل اور اختیارات دینے کے لئے تیار نہیں۔ تو بات یہ ہے کہ جمہوریت کے تینوں Tiersکے درمیان جب تک اختیارات اور وسائل کے حوالے سے ایک منصفانہ توازن پیدا نہیں کیا جائے گا، عوام کے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے کیونکہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).