بلوچ طلبا ہتھیار نہیں، قلم مانگ رہے ہیں


بلوچستان میں پوسٹ گریجویٹ کرانے والی کوئی چار یونیورسٹیاں ہیں۔ ایک میڈیکل کالج ہے۔ ایک زرعی یونیورسٹی ہے اور ایک خواتین کے لیے مختص ہے۔ باقی یونیورسٹیاں جیسا کہ یونیورسٹی آف لورالائی اور یونیورسٹی آف تربت میں گریجو ایشن تک پروگرام کروائے جاتے ہیں۔ بلوچستان کے طلبا کے لیے دوسرے صوبوں کے یونیورسٹی میں کوٹا مختص رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے ملک میں بھی غیروں کی طرح داخلہ لیتے ہیں۔ 73 سال میں بلوچستان میں چند جامعات کا ہونا جو کہ مکمل فعال بھی نہیں بنائی جا سکیں، اس سے کیا تاثر پیدا ہوتا ہو گا۔

کچھ عرصے سے بلوچستان کے طلبا کے لیے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں مختص سیٹوں کا ایک تسلسل کے ساتھ خاتمہ جاری ہے۔ 2017ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں مختص سیٹوں کو نصف کر دیا گیا اور اب اس سال 2020ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے بلوچستان کے طلبا کے لیے مختص سیٹوں پر اسکالر شپس ختم کر دیے گئے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ وہ اوپن میرٹ پر داخلہ لیں گے، جس میں ان کے لیے داخلہ لینا تقریباً نا ممکن ہو گا۔ کیوں کہ پس ماندہ علاقوں کے نو جوان شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ نا ہی ملازمت کے امتحانات میں اور نا ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایڈمشن حاصل کرنے میں۔

بلوچستان تو کیا، جنوبی پنجاب کے نو جوان بھی وہ کامیابی نہیں حاصل کر پاتے، کیوں کہ بنیادی تعلیمی ادارے اول تو ہیں نہیں، اگر ہیں بھی تو ان کا معیار وہ نہیں، جو شہروں یا ترقی یافتہ علاقوں کا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کی ان پالیسیوں کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان نے مسلسل چالیس دن کیمپ لگانے کے ساتھ پر امن احتجاج کے تمام آپشن استعمال کیے، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی شنوائی نہ ہونے کے سبب، بی ایس سی ملتان نے باقی تمام کونسل کی حمایت سے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

بلوچ طلبا لانگ مارچ پچھلے پانچ دنوں سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ پانچ دن کے بعد بلوچستان حکومت نے ایک فنڈ ریلیز نوٹیفیکیشن جاری کیا، لیکن اس پر طلبا مطمئن نہیں ہیں۔

اس نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ فنڈ پہلے سے داخل شدہ طلبا کے لیے جاری کیا جا رہا ہے، حالاں کہ پہلے سے داخل شدہ طلبا کے اسکالر شپس چل رہے ہیں اور آنے والے طلبا سے فیسوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ احتجاجی طلبا کا مطالبہ ہے کہ اسکالر شپس نئے آنے والے طلبا کے لیے سابق پالیسی کے تحت بحال کی جائیں۔

ان کے مطابق مسئلے کا مستقل حل، پنجاب گورنمنٹ ہی نکال سکتی ہے۔ جب وہ باقاعدہ بلوچستان کے طلبا کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اسکالر شپس کی بنیاد پر داخلے دینے کی پالیسی واضح کرے گی۔ پنجاب گورنمنٹ اور یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے بلوچستان کے طلبا کا داخلہ باقاعدہ پالیسی کے تحت کیا جائے۔

بلوچ طلبا لانگ مارچ کا دوسرا بڑا مطالبہ، ڈی جی خان کے قبائلی علاقوں کے طلبا کے لیے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں مختص سیٹوں پر اسکالر شپ کا اجرا اور سیٹوں میں اضافہ ہے۔ لیکن پنجاب گورنمنٹ نے ابھی تک ہمارا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا ہے۔

بلوچ طلبا لانگ مارچ کے تیسرے اور چوتھے مطالبے میں پنجاب کے دیگر یونیورسٹیوں میں موجود بلوچستان کے طلبا کے لیے مختص سیٹوں پر در پیش مسائل کا حل اور ختم شدہ سیٹوں کی دوبارہ بحالی شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں تمام مطالبات پورے نہیں کیے جاتے اور ریزرو سیٹوں کے مسئلے کو مستقل حل نہیں کرتے، تب تک یہ لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب جاری رہے گا۔

اس وقت وزیر اعظم اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور پنجاب کے بلوچ وزیر اعلیٰ کو ان طلبا کے زخمی قدموں پر مرہم رکھنا تھا، لیکن شاید ریاست کو تعلیم کا مطالبہ کرنے والوں میں دل چسپی نہیں، سوائے مخالف سیاسی جماعتوں کو ہاتھ دکھانے کے۔

یہ نو جوان ابھی تعداد میں تھوڑے ہیں، شاید ریاست کو ان چند طلبا کے احتجاج سے فرق نہیں پڑتا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان میں نئی جامعات کا اعلان کیا جاتا، جو ان متاثر طلبا کے کی تعلیم کو متاثر ہونے سے بچاتا، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہر طرف خاموشی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).