سیاسی جماعتیں اور اقلیتی ونگ


ویسے تو مجھے سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگ کی آج تک سمجھ نہیں آئی، حالاں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اقلیتی ونگ کے مرکزی صدر سینیٹر کامران مائیکل کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے (یہ میرا خیال ہے)، لیکن یہ تعلق پارٹی کی بنیاد پر نہیں ہے اور اس طرح سے دیگر سیاسی جماعتوں میں اقلیتی راہنماؤں کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ لہٰذا میں نے کبھی ان کی پارٹی کے معاملات میں دخل اندازی کی کوشش نہیں کی۔ یہ کارنامہ خیر سے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے سر انجام دیا تھا کہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو ایوان میں جانے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر ڈال دیا۔ (پھر کہتے ہیں کہ فوجی سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں)۔

بھلا ”تحریک لبیک پاکستان“ جس کے سربراہ غیر مسلموں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگ قانونی مجبوری کی بنا پر اقلیتی ونگ بنا بھی لیں، تو ان کی نظر میں غیر مسلم ارکان کی کیا قدر ہو گی؟ بد قسمتی سے یہی احوال ”جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام“ جیسی خالصتاً مذہبی جماعتوں کا ہے۔

ذہنی پس ماندگی کی ویسے تو بہت سی مثالیں موجود ہیں، لیکن یہاں صرف ایک کافی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو بظاہر لبرل جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے اس کے سربراہ اور خیر سے وقت کے حکمران عمران خان کی مذہبی انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ موصوف نے وفاقی کابینہ میں کسی غیر مسلم کو شریک نہیں کیا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں موجود اقلیتی ارکان کا کوئی خاص کردار نہیں رہا، تاہم دنیا کو دکھاوے کے لئے یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

اب پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ یا دیگر جماعتوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ اب اقلیتی ونگ میں موجود مسیحی کارکنان کی اگر بات کی جائے تو بد قسمتی یہ ہے کہ جیسے مجموعی طور پر کھینچا تانی جاری ہے، ویسا ہی کردار سیاسی جماعتوں میں بھی ہے۔ تقریباً ہر جماعت میں دھڑے بندی جاری ہے اور اس کی وجہ سے مجموعی مسائل کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کردار کو میں گزشتہ چند ماہ کے دوران میں اس وقت قریب سے دیکھا جب وفاق میں پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کی تنظیم سازی جاری تھی۔

قصہ یوں ہے کہ لاک ڈاؤن سے لے کر آج تک بے روز گاری کے دن کاٹ رہے ہیں، لہٰذا فرصت ہی فرصت ہے۔ وقت گزاری کے لئے کچھ وقت دوستوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں۔ ملک رحمت منظور ان میں سے ایک ہیں، جن کے ساتھ لگ بھگ ایک دہائی پرانا تعلق ہے۔ میں ان دنوں روزنامہ ”خبریں“ میں بطور رپورٹر کام کرتا تھا، جب مجھے ہیلتھ کی بیٹ ملی تو موصوف سرکاری اسپتالوں میں آکسیجن گیس کی سپلائی دیا کرتے تھے۔

ان دنوں میری ایک سرسری سی ملاقات ہوئی، مسیحی برادری سے تعلق ہونے کی بنا پر فطری طور پر نرم گوشہ موجود تھا۔ زیادہ شناسائی نہیں تھی، البتہ ساتھی رپورٹر نیر وحید راوت سے اس کی تعریف ضرور سنی تھی۔ پھر مجھے ایک روز یہ سن کر حیرانی اور دکھ بھی ہوا کہ سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن کے بعد ملک رحمت منظور صاحب کو دیگر ساتھیوں کے سمیت جیل بھیج دیا گیا۔ اب بات کو مذہبی رنگ دینا مناسب نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس ملک میں مذہبی بنیاد پر نفرت اور در پردہ پیشہ وارانہ حسد موجود ہے۔

خیر اب حالت یہ ہے کہ ملک رحمت ”لکھوں ککھ ہو گیا اے“۔ اور ان دنوں پیپلز پارٹی، اقلیتی ونگ کا سٹی صدر ہے۔ اب موصوف کے اہداف تو مجھے معلوم نہیں، البتہ اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کی تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ اتحاد کے بعد اقلیتی ونگ کو یہ ٹاسک ملا کہ انہوں نے نا صرف جلسوں جلوسوں میں بھرپور شرکت کرنی ہے بلکہ پارٹی کو مرکز میں مضبوط بنانا ہے، لہٰذا ملک رحمت صاحب متحرک ہو گئے۔

اس سلسلے میں مجھے اس کے ساتھ پارٹی کے بعض لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ وفاقی دار الحکومت میں برساتی نالوں کے ارد گرد اور کچی آبادیوں میں مخدوش حالات میں رہنے والے یہ لوگ اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے اتنی توانائی صرف نہیں کرتے، جتنی جد و جہد ایک دوسرے کی کھنچا تانی میں کرتے ہیں۔ ملک رحمت کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مختصر عرصے کے دوران میں جڑواں شہر میں پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کو اکٹھا کر دیا ہے اور اس کوشش میں مصروف ہے کہ نا صرف پارٹی کی سطح پر متحد کیا جائے، بلکہ کچی بستیوں میں بسنے والے مسیحیوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔

معلوم نہیں ملک رحمت اس مقصد میں کتنا کامیاب ہوتا ہے، اس کا انحصار تو وفاق میں موجود مسیحیوں کے تعاون پر منحصر ہے۔ جہاں تک ملک صاحب کو میں جانتا ہوں، وہ دوستوں کے لیے جان نچھاور کرنے والا نڈر اور با اعتماد دوست ہے۔ اس کے سپرد جو کام کیا جائے اسے پورا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ لہذا وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح سے گاؤں سے دار الحکومت میں پہنچ کر اس نے محنت کر کے مقام حاصل کیا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کی مضبوط کر کے دم لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسے پارٹی کی سینئر قیادت کا اعتماد بھی حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).