عمران خان کی سیاست کو سمجھنا ناممکن کیوں ہے؟


یارو، عمران خان صاحب کی سیاست کو سمجھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ آپ کو معلوم ہی نہیں ہو گا، مگر میں بتاتا ہوں کہ چند دن پہلے جناب زلفی بخاری پاکستان سے واپس برطانیہ کیوں گئے تھے۔ اس سوال کا جواب آپ کل میاں صاحب کی تاریخی تقریر میں تلاش کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان صاحب نے گورننس اور معیشت میں اپنے کامیابی اور شاندار مہارت کے جب جھنڈے گاڑ دیے تو ہی انہوں نے اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ یہ وقت مناسب ہے کہ سیاست کے میدان میں بھی شانداریت کی معراج پر پہنچا جائے۔

جناب عمران خان صاحب نے، بھولے بھالے، میاں صاحب کو عین اپنے اس مقصد کے لیے استعمال کیا کہ سیاستدانوں اور پاکستان میں سیاست کی آزادی کا اک بھرپور مقدمہ عوام کے سامنے رکھا جائے اور عوام کو اس بات کا شعور مزید فراہم کیا جائے کہ عمران خان صاحب، پاکستان کی انتظامی، معاشی اور اب سیاسی بقا کے لیے بھی کتنے اشد ضروری ہیں۔

عمران خان صاحب نے ہی تو اس سارے کام کا ایسے انتظام کروایا کہ ایسے محسوس ہو کہ جیسے یہ کام وہ نہیں، کوئی اور ہی کر رہا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ آزادانہ انتخابات میں مکمل جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی حکومت کی کسی ادارے سے کوئی چپقلش نہ ابھرنے پائے۔ پاکستان کی شاندار ترقی کے عظیم تر مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے، عمران خان صاحب نے میاں نواز شریف صاحب کا کندھا اس لیے استعمال کیا کہ اپوزیشن تو ہوتی ہی مخالفت کرنے کے لیے۔

ذرا سوچیں کہ ادھر میاں صاحب اختلاف کر رہے ہیں، تو ادھر سیاسی حکومت اور ادارے، بالخصوص فوج، پاکستان کی مزید ترقی اور معاشی انقلاب کے لیے ایک ہی صفحے پر موجود ملتے ہیں۔ پھر عمران خان صاحب کے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے شور ”نیازی بھاگا بھاگا بھاگا“ کے پس منظر میں بھی رکھ کر دیکھیں کہ انہوں نے ایسا تاثر دیا کہ جیسے وہ اپوزیشن کے سخت خلاف ہیں۔

واہ عمران خان صاحب، واہ۔ مان گئے بھئی آپ کی سیاست کو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اک آزاد، جمہوری اور سیاسی حکومت ہی پاکستان کے انتظامی، معاشی اور سیاسی معاملات کو بہترین طریقے سے سلجھا سکتی ہے۔ پاکستان کو عظیم تر آزادیوں اور عظیم ترین عظمت کے مقام تک پہنچانے میں جناب عمران خان صاحب کی بے پناہ صلاحیتوں کا تاقیامت اعتراف کیا جاتا رہے گا۔

اسی معاملہ میں، میرے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور جناب جنرل فیض حمید صاحب کے شاندار اور قربانی دینے والے کردار کا بھی معترف ہونا چاہیے۔ انہوں نے اپنے ناموں کی بازگشت بہت اطمینان سے اس لیے بھی سنی ہو گی کہ انہیں جناب عمران خان صاحب کی پاکستان سے کمٹمنٹ اور پاکستان کو مزید ترقی دینے کی جدوجہد کا اندر کھاتے لازما معلوم ہو گا۔ تب ہی تو انہوں نے میاں نواز شریف صاحب کی کہی ہوئی باتوں کا کوئی برا محسوس نہ کیا۔

واقعی کہ اللہ کے غازی بندے، بقول جناب ڈاکٹر اقبال کے، ساتھ ساتھ میں پراسرار بھی ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ غازی اور پراسرار بندے پاکستانی فوج سے ہوں تو ان کا غازی اور پراسرار ہونا مزید بڑھ جاتا ہے۔ مجھے اس بات پر مان ہے کہ ہم جناب عمران خان صاحب کے دور میں جی تو رہے ہی ہیں، ساتھ ساتھ ہی میں ہمارے پاس جناب جنرل قمر جاوید باجوہ، جناب جنرل فیض حمید صاحب کے ساتھ ساتھ، جناب جنرل عاصم سلیم باجوہ اور جناب آصف غفور صاحب کی بے پناہ صلاحیتوں والی قیادت بھی مہیا ہے۔

میں یہ تجزیہ اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ عوام گمراہی کا شکار نہ ہوں اور جان سکیں کہ عمران خان صاحب اک عظیم سیاستدان نہیں، وہ بلکہ صدیوں تک زندہ رہنے والے سیاسی مفکر اور سیاسی سائنسدان ہیں۔ عین ویسے ہی کہ جیسے افلاطون ہوا کرتے تھے۔ ایسے مدبران کی موجودگی میں پاکستان کی صرف ایک ہی منزل ہے میرے یارو، اور وہ ہے : اوپر، بہت اوپر، اتنا اوپر کہ بہت ہی زیادہ اوپر۔

سب میرے ساتھ مل کر تین مرتبہ ”انشاءاللہ، انشاءاللہ، انشاءاللہ“ کہیں۔ نوٹ یہ کریں کہ تین مرتبہ پوری طرح سے ”انشاءاللہ، انشاءاللہ، انشاءاللہ“ کہنا ہے۔ یعنی کل نو مرتبہ۔

پاکستانی اس بات پر بھی اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہمارے پاس سیاست اور اداروں میں ایسے قابل اور بے لوث رہنما موجود ہیں جن کے فیصلوں کی بدولت پاکستان دن دوگنی، رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ کیوں نہ کرے بھئی، آخر کو عمران خان صاحب جو موجود ہیں جنہوں نے اب پاکستان میں سیاسی مضبوطی کا دروازہ بھی کھول ڈالا ہے۔ اور اس معاملہ میں تمام لوگ اور ادارے ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔

عمران خان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).