پنجاب کے پہلے غدار کی للکار


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ میں ہونے والے پہلے جلسہ کے دوران، میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں ان کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے، پھر الیکشن میں دھاندلی کروا کے عمران خان کی حکومت بنوانے اور ملک کی موجودہ بدترین صورتحال کا ذمہ دار موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو قرار دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے کھلے الفاظ میں جنرل باجوہ صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ ان کو اس سب پر جوابدہ بھی ہونا ہوگا۔

اس کے ساتھ انہوں نے اپنے اوپر قائم کیے جانے والے غداری کے مقدمہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی کہا کہ وہ کوئی اس ملک کے پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جن پر یہ الزام لگایا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی یہاں کبھی محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا، کبھی حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمٰن، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری اور دیگر کو اس لقب سے نوازا گیا۔ مگر جنھوں نے حقیقی معنوں میں آئین توڑا ان کو کبھی غدار کہنے کی جرات نہیں کی گئی۔

میاں نواز شریف صاحب کی یہ بات تو درست ہے کہ وہ اس ملک کے پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جن پر ملک سے غداری کا الزام لگایا گیا ہے۔ مگر وہ اس لحاظ سے ضرور منفرد ہیں کہ وہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے پہلے غدار قرار پائے ہیں کیونکہ اس سے پہلے قیام پاکستان سے لے کر جتنے بھی سیاسی رہنماؤں کو یہ شرف بخشا گیا ہے ان سب کا تعلق مشرقی پاکستان یا دیگر صوبوں سے تھا۔ مثلاً ملک کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل، قرارداد لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق، ملک کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور شیخ مجیب الرحمٰن، جن کو غدار کہا گیا ان سب کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے۔

اسی طرح غدار قرار دیے جانے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، قوم پرست رہنما جی ایم سید اور میر غوث بخش بزنجو، ملک کو آئین دینے والے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ جبکہ یہ شرف حاصل کرنے والے نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل اور محمود خان اچکزئی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اسی طرح پشتونوں کے رہنما خان عبدالغفار خان عرف باچا خان، ان کے بیٹے ولی خان، اب پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین، جن سب کو یہاں غدار قرار دیا گیا، ان سب کا تعلق صوبہ خیبر پختون خواہ سے ہے۔

حتیٰ کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما بابا جان کو بھی غداری کا سرٹیفکیٹ عنایت کر کے پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ ان سب سیاسی رہنماؤں کو مقتدرہ قوتوں کی طرف سے صرف اس لیے غدار قرار دیا گیا کہ انہوں نے ان قوتوں کے مقابلے میں عوام کے حق کی بات کرنا شروع کردی۔ یہی جرم اب میاں نواز شریف نے سرزد کر دیا ہے۔ بلکہ جس طرح سے انہوں نے براہ راست ان مقتدرہ قوتوں کو اپنا ہدف تنقید بنایا ہے۔ اس کی بھی مثال ہمارے ملک کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اس سے پہلے فوجی آمروں کو مختلف سیاسی رہنماؤں، ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے ضرور للکارا جاتا رہا ہے۔

مگر ایک بظاہر جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے موجودہ فوجی سربراہ کو جس طرح سے ایک سابق وزیراعظم، میاں نواز شریف کی طرف سے نام لے کر موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ایک بالکل نئی روایت ہے۔ جس کا آغاز پنجاب کے اس غدار نے کیا ہے۔ جس سے اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ میاں نواز شریف نے اب ساری کشتیاں جلا دی ہیں۔ اور وہ اپنے ”ووٹ کو عزت دو“ اور ”سول بالادستی“ کے بیانیے پر ڈٹ کر عوام سے حقوق چھیننے والوں کو للکار رہے ہیں کہ ان کو ناصرف اپنی روش بدلنی ہوگی بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہونا ہوگا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ایک بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما کا ایسے بیانیے کو اپنانا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی صاحبزادی مریم نواز، اپوزیشن جماعتوں کے دیگر سیاسی رہنما اور اس ملک کے عوام بھی اس بیانیے کے ساتھ کھڑے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ جب عوام کے حق انتخاب کو تسلیم کرنے کی بجائے مقتدرہ قوتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے نا اہل حکمران عوام پر مسلط کیے جاتے ہیں تو پھر عوام بے حال ہی ہوتے ہیں۔ عوام کے مسائل کا ادراک صرف ان حکمرانوں کو ہوتا ہے جن کو عوام اپنی مرضی سے منتخب کرتے ہیں کیونکہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں۔

جبکہ کسی اور قوت کی مدد سے اقتدار میں آنے والے حکمران عوام کی بجائے اسی قوت کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ”ووٹ کو عزت دو“ اور ”سول بالادستی“ کے بیانیے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ جس طرح اس جدوجہد کا آغاز کیا گیا ہے۔ سول بالادستی کا حصول جو اس ملک میں دیوانے کا خواب ہی سمجھا جاتا رہا ہے، شاید اب وہ ممکن ہو سکے۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو تاریخ میں میاں نواز شریف کو پنجاب کا پہلا غدار نہیں بلکہ ایک بہت بڑے لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).