محمد بلال غوری کی کتاب ”لاپتا کالم“


پاکستان میں تواتر سے استعمال ہونے والے دو لفظوں یعنی ”لاپتا“ اور ”نا معلوم افراد“ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیوں کہ جب بھی کچھ لاپتا ہوتا ہے تو اس کا الزام نا معلوم افراد پر عائد کیا جاتا ہے۔ اختر مینگل حکومت کے اتحادی بنے تو مطالبات میں ”لاپتا“ کی گونج سنائی دی۔ محمد حنیف صاحب کے باوردی ”آم“ بازار میں دستیاب ہوئے تو نا معلوم افراد کی ایک لہر نے انہیں بھی لاپتا کر دیا اور پھر خاصے عرصے سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے وکالت کرنے والے انعام صاحب اچانک لاپتا ہو گئے، وزارت دفاع سے بازیاب تو ہوئے، مگر بعد ازاں غیر ملکی ایجنٹ مشہور ہیں۔

اسی سلسلے میں بہت عرصے سے لاپتا ہونے والے کالموں پر مشتمل ایک کتاب پڑھنے کو ملی، کتاب کا نام ہی ”لاپتا کالم“رکھا گیا ہے، مصنف روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار محمد بلال غوری ہیں اور اسے ساگر پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد بہت سے کالموں کے ”لاپتا“ ہونے کے پیچھے چھپے ”نا معلوم افراد“ بھی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ پلٹ کے، جھپٹ کے، کیسے کیسے اور کس کس ”مقدس گائے“ کے بارے میں لکھے گئے کالم لاپتا کیے گئے، ذرا احوال پڑھیے:
غوری صاحب کا پہلا کالم 2005ء میں لاپتا ہوا، جب واشنگٹن پوسٹ نے ایک کارٹون شائع کیا، جس میں ایک کتے کے گلے میں پاکستان کا ٹیگ تھا۔ اس پر شدید احتجاج ہوا مگر پرویز مشرف نے یہ تاویل پیش کی کہ کتا مغربی معاشرے میں وفاداری کی علامت ہے، اسی تناظر میں غوری صاحب کا روزنامہ پاکستان کے لئے لکھا گیا کالم لاپتا ہو گیا۔

غوری صاحب نے فرقہ وارانہ طور پر بٹے معاشرے کی اعلی ہستیوں کے اعلی ظرف عقیدوں پر ٹھوکر کیا لگائی کہ اسی تناظر میں لکھے گئے کئی کالم غائب ہو گئے۔
اگلا کالم کچھ سوالات کی پاداش میں رگڑا گیا، جن میں پہلا سوال کچھ یوں تھا کہ، ہمارا ایمان ہے کہ رمضان کا آغاز ہوتے ہی شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے مگر میں نادان ہر سال کی طرح اس بار بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شیطان جکڑ دیا جاتا ہے تو ہر انسان پر وجد ان کی کیفیت کیوں طاری نہیں ہوتی؟
دوسرا سوال: اگر شیطان مردود ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، وہی گناہوں پر اکساتا ہے، گم راہی کے راستے پر چلاتا ہے اور اپنے چنگل میں پھنساتا ہے تو پھر ماہء صیام میں سب گناہ گار راہء راست پر کیوں نہیں آ جاتے؟

میرا ذاتی خیال ہے کہ ایسے سوالات اٹھانے پر سب سے زیادہ ”توہین“ تو شیطان کی ہوئی ہو گی، لہذا کسی شیطان ہی نے ”ہتک عزت“ کے جرم میں کالم رکوا دیا ہو گا۔

دنیا میں فتنہ و فساد کی جڑ عورت ہے، اگر عورت نہ ہوتی تو کرہء ارض پر کوئی گناہ گار نہ ہوتا، جیسا نظریہ رکھنے والے مذہبی طبقے کے کسی بھی قسم کے اکٹھ میں خواتین کی آمد پر ایمان میں پڑھنے والے ”خلل“ پر ذرا سی تنقید برداشت نہ ہوئی اور کالم لاپتا ٹھہرا۔

غوری صاحب نے 2013ء میں امریکی ڈرون حملوں کے رد عمل میں عمران خان کی کے پی حکومت اور نواز شریف کی مرکزی حکومت کی طرف سے خلوص نیت سے احتجاج نہ کیے جانے پر پر شکوہ کے انداز میں کچھ سوال اٹھا دیے، تو کالم نا قابل اشاعت ٹھہرا۔

پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے ”وقار“ کا ہر حال میں تحفظ کرنے کا اعلان کیا، تو غوری صاحب نے لکھا:
”جہاد فی سبیل اللہ کا ماٹو رکھنے والی اس سپاہ کا وقار، تب مجروح ہوتا ہے، جب کشمیر فتح کرنے کی بجائے اسلام آباد کو تسخیر کیا جاتا ہے۔ افواج کا وقار تب مجروح ہوتا ہے، جب سیاستدانوں اور صحافیوں کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں اور دہشت گردوں کا سراغ لگانے کی بجائے ارکان پارلیمنٹ اور مذہبی رہنماؤں کی فائلیں تیار کی جاتی ہیں۔ پاک فوج کے وقار پر آنچ تب آتی ہے، جب کوہلو اور ڈیرہ بگٹی سے مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ اس مقدس ادارے کی حرمت پر سوالات تب اٹھتے ہیں، جب کسی ضابطے کے بغیر بے گناہ لوگ لاپتا ہو جاتے ہیں اور ان کے لواحقین انصاف کی دہائی دیتے پھرتے ہیں۔

چھوڑو! کہاں تک نقل کروں گا، آخر کہاں تک اتنی کڑوی گولیاں ہضم ہوں گی۔ جہاں انسان لاپتا ہوں، وہاں کالم کیا شے ہے؟

ایک کالم پڑھ کے معلوم ہوا کہ اب شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند پاک، چین دوستی پر ذرا سی تنقید کو بھی ”بچپن کی یاری“ خراب کرنے کی سازش تصور کیا جائے گا، نیز اس پر بھی پابندی ہے۔

کتاب یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ اگر کرنل (ر) محمود الزماں حامد کے فرزند مبارک زید حامد پر کچھ لکھو گے تو شائع نہیں ہو گا، اگر آپ وزیرستان میں ہونے والے ریاستی جبر پر سوال اٹھاؤ گے کہ: کیا پختون انسان نہیں ہیں؟ تو شاید جواب آئے گا، اس جرم میں آپ کا کالم نا قابل اشاعت قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جہاد کے علم برداروں سے سوال کرنا بھی سختی سے منع ہے اور دوست عرب ممالک سے پاکستان آ کر شکار کرنے والے شہزادوں پر تنقید تو بالکل ”حرام“ ہے۔

کتاب کی روداد جاری ہے، کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کی داد رسی کے لئے کچھ لکھو گے تو ”را“ آپ کا کالم سنسر کروا دے گی، نا معلوم افراد کے بارے میں معلوم ہونے کا دعوی کرو گے یا کرنے والوں پر تنقید کے لئے ذرا بھی الفاظ ضائع کرو گے تو بہت جلد آپ کو اس غلطی پر پشیمان ہونا پڑے گا، کسی (ر) جنرل پر بھی قلم اٹھانے سے پہلے سوچیں اور سوچ کر یہی فیصلہ کریں کہ قلم نہ اٹھایا جائے۔

پاکستان میں جرنیل اور مولوی کے بعد سب سے قابل عزت عدلیہ ہے، جس کی توہین ہرگز نہ کی جائے، جس کی واضح مثال ”بابا رحمت دین کی سادگی“ والا کالم ہے جو ناقابل اشاعت ٹھہرا۔ کوئی چاہے جتنا ”فیض“ سے فیض یاب ہو رہا ہو، مگر آپ کسی بھی فیض کے خلاف منہ بند رکھو، قومی سلامتی و ذاتی سلامتی کا سوال ہے بابا۔

نیب بھی مقدس گائے ہے اور اس کی شان میں بھی گستاخی نہ کرو تو بہتر ہے، کسی کی باتوں میں آ کر مثبت خبروں کے چکر میں سنسر شپ کے خلاف مت ”بکو“ ورنہ آپ کا اپنا کالم سنسر ہو سکتا ہے۔

ایک کالم جو بعنوان ”مسلمانو! تم نے یہ کیا کیا؟“ لکھا گیا جو شاید سابق بھارتی صدر ڈاکٹر پنڈت شنکر دیال شرما کی ایک نظم کی وجہ سے نا قابل اشاعت ہو گیا۔ نظم کچھ یوں ہے:
مسلمانو! تم نے یہ کیا کیا؟
قرآن عمل کی کتاب تھی
تم نے اسے دعا کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی
تم نے اسے پڑھنے کی کتاب بنا دیا
یہ زندوں کا دستور تھا
تم نے مردوں کا منشور بنا دیا
علم کی کتاب تھی
تم نے اسے لا علموں کے ہاتھ میں دے دیا
تسخیر کائنات کا درس دینے آئی تھی
تم نے مدرسوں کا نصاب بنا دیا
مردہ قوموں کو زندہ کرنے آئی تھی
تم نے اسے مردے بخشوانے پر لگا دیا
مسلمانو! تم نے یہ کیا کیا؟

یہ تھیں وہ موٹی موٹی باتیں جو اس کتاب کی روداد سے مجھے سمجھ آئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).