فضائی آلودگی اور سموگ سے کیسے بچا جائے


کراچی میں آپ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو ہر طرف بھاری ٹریفک میں چنگچی رکشا، سوزوکیوں، کاروں سمیت دیگر گاڑیوں کے سیلنسر اور مختلف انڈسٹریوں سے نکلتا دھواں، آپ کا بھر پور استقبال کرے گا۔ اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی گرد اور مٹی سے بھرا چہرہ اور کھانسی آپ میں گھر کر جائے گی، اسی صورت احوال کا سامنا آپ کو لاہور، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں بھی یقیناً کرنا پڑتا ہے، جس کو ہم روزمرہ کی زندگی میں تو ماحول کا ایک حصہ سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن گزشتہ 5 سالوں سے اس کے جو نقصان ہمارے سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی زندگیوں کے لئے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں، پر ہمیں اس کی کوئی فکر محسوس نہیں ہوتی۔

فضائی آلودگی یا سموگ، اگر چہ نیا مسئلہ تو نہیں، لیکن اب یہ اس سطح پر ضرور پہنچ گیا ہے، جس سے انسانوں سمیت دیگر حیات کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سال 2016 ء سے لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں سمیت کراچی میں سموگ کی بڑھتی ہوئی صورت احوال سے ہمارے ماحول پر اس کے بہت سے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور مختلف بیماریاں جنم لے رہی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ فیکٹریاں، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں اور فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والا دھواں ہے۔ فضائی آلودگی اور سموگ میں مختلف مادے، گیسیں اور ذرات ہوا میں مل کر ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ موسم سرما کی آمد سے قبل اس موسم میں یہ پارٹیکل آپس میں مل کر سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جس سے انسانوں سمیت دیگر حیات سخت حالت سے دو چار ہوتے ہیں۔

1905ء میں برطانوی ڈاکٹر ہنری انتووین ڈی وو نے پہلی بار سموگ کا لفظ برتا۔ انہوں نے ماحولیات سے متعلق اپنے ایک مقالے میں انگریزی کے دو الفاظ (Fog) دھند اور (Smoke) دھویں کو ملا کر (Smog) سموگ کا لفظ استعمال کیا، تب سے یہ لفظ دنیا بھر میں رائج ہوا۔ سموگ دھند نما آلودہ دھواں ہوتا ہے، جس میں مختلف زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں، جو پاکستان میں اکتوبر سے جنوری تک فضا میں بڑی مقدار میں برقرار رہتی ہیں۔ اس دوران میں لاہور اور کراچی میں ہوا کا معیار (اے کیو آئی) 255 سے 400 تک بڑھ جاتا ہے، جسے خطرناک حد تک غیر صحت مندانہ قرار دیا گیا ہے۔ فضائی آلودگی جانچنے والے عالمی ادارے آئی کیو ائر کے مطابق، گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کے کئی شہر، دنیا کے 50 آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں اور ان میں لاہور پہلے نمبر پر آتا ہے۔

آلودگی کے باعث فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں اضافہ ہو رہا ہے، جو انسانی صحت کے لئے مضر ہے اور سموگ یا آلودہ دھند کے دوران نائٹروجن آکسائڈ، ہائڈرو کاربن کے بخارات انسانی زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ٹرانسپورٹ ذرائع سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کا بھی اخراج ہوتا ہے، جو انسانی زندگی کے لئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ وہ سانس کے ذریعے انسان کے خون میں شامل ہو کر دمہ، پھیپھڑوں، سانس اور دل کی دیگر جان لیوا بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ اور مضر گیسیں، گلوبل وارمنگ اور ایسڈ رین کا باعث بھی بنتی ہیں، جس سے درجہ حرارت بڑھتا ہے۔

دنیا کی 91 فی صد آبادی ایسے مقامات پر رہتی ہے، جہاں کا فضائی معیار بہت خراب ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 70 لاکھ کے قریب لوگوں کی اموات ہوتی ہے، جس میں 6 لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ موسم سرما میں سموگ کا ایک سبب کوئلہ بھی ہے۔ کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے بھی ماحولیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی ایک وجہ اینٹوں کے بھٹوں میں بڑی تعداد میں غیر معیاری ایندھن کا استعمال ہے۔ محکمہء ماحولیات کی طرف سے بہتر انداز میں کارروائی نہ ہونے سے ماحولیات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، جو مختلف بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔

سموگ ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے اور اس سے ماحول کو بچانے کا اہم ذریعہ شجر کاری اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دینا ہے۔ وفاقی حکومت اس وقت شجر کاری پر کام کر رہی ہے اور 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ لیکن گراؤنڈ صورت احوال دیکھیں تو شجر کاری کے بعد ان درختوں کی دیکھ بحال بہتر انداز میں نہ ہونے سے، وہ دم توڑ رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کو شجر کاری کے ساتھ درختوں کا تحفظ بھی یقینی بنانا ہو گا، تا کہ ماحول میں خوش گوار تبدیلی رو نما ہو۔

اس وقت ہمیں سموگ کے تدارک کے لئے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کر کے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سموگ کی اس صورت احوال میں کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات جلانے سے اجتناب کرنا ہو گا۔ نئی زگ زیگ پالیسی تحت کام نہ کرنے والے اینٹوں کے بھٹوں کو بند کرنا ہو گا۔ فضا میں زہریلا دھواں چھوڑنے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہو گی۔ اجتماعی کوششوں ہی سے ہم سموگ یا آلودہ دھند کو ختم کر کے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).