نیا عمران خان


گوجرانوالہ میں اپوزیشن کے جلسے کے بعد عمران خان نے متحدہ اپوزیشن کو مخاطب کر کے سخت لہجے میں تنبیہ کر کے کہا کہ آج کے بعد اب ان کو ایک نئے عمران خان سے سامنا ہو گا، یا نیا عمران خان ملے گا۔ نیا لفظ پی ٹی آئی کے لئے نیا نہیں۔ نیا لفظ یا نئے لفظ کا نعرہ پی ٹی آئی کی سیاسی پہچان ہے۔ اپوزیشن کے وقت میں پی ٹی آئی تبدیلی کا نعرہ تواتر سے لگاتی رہی، بلکہ عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر یہ صدا لگاتے رہے ہیں کہ تبدیلی آئے گی نہیں، تبدیلی آ چکی ہے، اور پھر برسر اقتدار آ کر یہ تبدیلی نئے پاکستان کے سلوگن میں تبدیل کیا گیا۔

اس نئے پاکستان میں جو نئی اور بالکل تازہ تبدیلی چشم فلک اور بندگان سر زمین و فلک نے دیکھی، وہ وزیر اعظم کے حلف برداری کے تقریب کے دن سویرے سویرے بنی گالہ کے مین گیٹ پر وزیر اعظم کو لانے والے مامور صاحب جناب نعیم الحق کو اندر جانے ہی نہیں دیا گیا اور وزیر اعظم کے خاص سکواڈ اپنے پرانے ڈگر پر اپنے نئے وزیر اعظم کو حلف برداری کی تقریب کے لئے لائے اور مامور بے چارہ خراماں خراماں بعد میں اس تقریب میں ایک مہمان کی حیثیت سے شریک ہوئے۔

اس نئے پاکستان میں تازہ تازہ ناچ گانوں سے فارغ، پر عزم عوامی ہجوم نے یہ بھی اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جس شیخ رشید کو عمران خان، چپڑاسی رکھنے کے روادار نہیں تھے، ان کو وزارت کے مرتبے پر فائز کیا۔ اس نئے پاکستان میں پہلی بار منتخب نمائندوں کے بجائے دیسی اور بدیسی بیوروکریٹ یا منظور نظر افراد کو مشیران خاص مقرر کیے گئے، اس نئے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کو دوبارہ معاشی کمک کے لئے گود لیا گیا، اس نئے پاکستان میں مافیا کو ”گراس روٹ“ سے ری آرگنائزڈ کیا گیا اور خورد و نوش کی اشیا جن میں آٹا، گندم اور چینی کے علاوہ ٹماٹر، آلو، پیاز اور یہاں تک کہ بینگن جیسی سبزی کی قیمتیں زمین کے بجائے آسمان سے باتیں کرنی لگیں۔

اس نئے پاکستان میں وی وی آئی پی پروٹوکول اسی زور و شور سے دیکھا گیا، جو پرانے پاکستان میں عوام دیکھتے چلے آرہے تھے۔ اس نئے پاکستان میں شیر کے مقابلے میں ٹائیگر فورس کو متعارف کیا گیا، لیکن عوام کو ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ وہ رضا کار ہیں، یا روزی کار۔ کیوں کہ ان سے ایسا کوئی عملی کام لیا ہی نہیں گیا، کہ لوگ ان سے متعلق کوئی رائے قائم کر سکیں۔ اس نئے پاکستان میں لوگ کرونا کے وبائی بیماری کے دوران میں ایک نئے اور بین الاقوامی چیلنج سے نبرد آزما ہوئے۔

اس نئے پاکستان میں ملین ٹری، ایک لاکھ نوکریوں، نئے گھروں، بی آر ٹی اور باہر سے لوگ نوکریوں اور روزگار کے لئے پاکستان آ کر جیسے نئے اور جدید تجربوں سے آشنا ہوئے، اس نئے پاکستان میں غیر ملکی سربراہان کو وزیر اعظم خود ڈرائیو کر کے وزیر اعظم ہاؤس لانے جیسے نئے ریت کی داغ بیل ڈالی۔ اس نئے پاکستان میں پہلی بار، لوگوں نے یہ بھی جان لیا کہ سٹنگ وزیر اعظم بھی بعض واقعات سے ٹی وی کے ذریعے مطلع ہوتے ہیں اور عوام کو بھی آگاہ کرتے ہیں۔

اس نئے پاکستان میں لوگوں کو روپے کو پہلی بار زمین پر آ کر گرنے اور ڈالر کو آسمان میں جا کر اڑنے کا منظر دیکھنا بھی نصیب ہوا۔ اس نئے پاکستان میں عوام نے پیٹرول اور سی این جی کی قیمتوں کو سینچری مارنے کا پے در پے رکارڈ بنتے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتے دیکھا۔ اس نئے پاکستان میں وزارتوں، مشیروں اور اعلی عہدوں کی تبدیلی اور ری شفلنگ تو جیسے بنیادی کام رہا ہو۔

اس نئے پاکستان میں منی ٹریل کا سیاسی اور غیر سیاسی تضاد کو لوگوں نے عدالت اور قانون کے وزارت سے پاس ہوتا ہوا دیکھا اور محسوس بھی کیا۔ اس نئے پاکستان میں ہر وہ کام ہوا، جس کو ہونا تھا لیکن کسی نہ کسی حوالے سے پینڈنگ تھا، یا رکھا ہوا تھا اور ہر وہ کام نہیں ہوا، جس کو کسی بھی صورت نہیں ہونا تھا، لیکن پھر بھی پینڈنگ نہیں تھا۔ اس نئے پاکستان میں عوام پرانے پاکستان کو ترس رہے ہیں کہ عین عوامی جوبن سیاست کے بیچوں بیچ عمران خان اب کی بار نئے پاکستان کے بجائے نئے عمران خان کا ایک نعرہ مستانہ بلند کر گئے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تبدیلی کا نعرہ ان کو، بلکہ عوام کو راس آتا ہے کہ نہیں، کیوں کہ سابق رکارڈ تضاد کی ورق گردانی پر منتج ہے، اور الٹ سمت اور پلٹ قدموں کی چاپ کا ثبوت باہم فراہم کر رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نیا عمران خان، ایسا نیا ہو کہ لوگ پرانا یاد کرنے لگیں۔ کیوں کہ جو اب تک کہا ہے، کیا نہیں۔ اور جو کیا ہے، کبھی کہا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).