مادر ملت زندہ باد


تاریخ گواہ ہے، خلوص نیت، سچ کی آواز اور ظلم کے مخالف جد و جہد، وقتی شکست کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن حق و باطل میں جیت حق ہی کی ہوتی ہے۔ جب جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار اور ملک دشمن کہا اور جمہوریت کا گلا گھونٹ کے آمریت کا زہریلا پیالہ، پہلی بار عوام کو پیش کیا۔ بظاہر دھاندلی سے الیکشن بھی جیت لیا۔ کیا ایوب نے سوچا ہو گا کہ آج پچپن سال بعد ”لہو پکارے گا آستیں کا“؟ مادر ملت زندہ باد! کے نعرے لگیں گے؟ وہ جنرل ایوب جس کے بیٹے ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں، وہ اپنے باپ کو مجرم ٹھہرانے سے نہ بچا سکے اور وہ نحیف جثے والی پراسرار موت سے رخصت ہو جانے والی، ایک اکیلی عورت، آج اپنی جنگ جیت گئی۔ آنے والے ہر دور تک با عزت و سرخ رو ہو گئی۔

فاطمہ، ایوب الیکشن انیس سو پینسٹھ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اعتبار سے اہم ہیں۔
اول۔ یہ قائد اعظم۔ بابائے قوم کی اس بہن کا عملی سیاست میں پہلا قدم تھا۔
دوم۔ ایک فوجی سربراہ کے مقابل بانی پاکستان، سفیر جمہوریت محمد علی جناح کی سوچ اور فلسفہ زندہ کرنے کی کوشش تھی۔
سوئم۔ یہ ثابت کرنے کی جنگ تھی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ووٹ ایک امانت بھی ہے اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی طاقت بھی۔

لیکن ان الیکشن میں کیا ہوا؟ کس کس طرح دھاندلی کی گئی، حکومتی اداروں اور مشینری کو فاطمہ جناح اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا، یہ تمام تاریخ کا حصہ ہے اور با آسانی نیٹ پہ دستیاب ہے۔

پینسٹھ کا الیکشن ایک خاص طرز کا انتخابی عمل تھا، جس میں عوام کو براہ راست انفرادی ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی بلکہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے اسی ہزار منتخب کونسل اور منتخب اسمبلیوں کے اراکین کو ووٹ کے ذریعے عوامی رائے دہی کے بارے میں فیصلہ کرنا تھا۔ کراچی سے مادر ملت کو 1046 اور ملک کے جبری صدر اور آرمی چیف کو 837 ووٹ ملے۔ ڈھاکا سے فاطمہ جناح کو 353 اور جنرل ایوب کو 199 ووٹ ملے۔

فیصلہ تو کسی حد تک یہیں سامنے آ گیا۔ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی لیڈر تھیں۔ عوام کا اعتماد اور بے پناہ عزت انہیں کی جیت کو یقینی بنا رہی تھی۔ مولانا مودودی ان کی حمایت میں سرگرم تھے، باچا خان اور ان کی پارٹی، جی ایم سید اور فاضل راہو، فاطمہ جناح کے حلیف و حامی تھے۔ جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح پر غدار اور ملک دشمن ہونے کا الزام لگایا۔ وظیفہ خوار مفتیوں سے فتوی لئے کہ ایک عورت مسلم حکومت کی سربراہی نہیں کر سکتی، یہی نہیں۔ ایک کتیا کو فاطمہ جناح کی پہچان سفید دوپٹہ پہنایا گیا، اس کے گلے میں ان کا انتخابی نشان لالٹین ڈال کے ایک تختی پہ فاطمہ جناح لکھ کے گلی گلی پھرایا گیا۔ (فاطمہ جناح کا نہیں تو نام فاطمہ ہی کا لحاظ کر لیا جاتا) تاہم اس کے با وجود نظر آ رہا تھا کہ فاطمہ جناح صدارتی انتخاب میں آمر ایوب کو پچھاڑ دیں گی۔

مگر کوئی جادوئی چھڑی چلی کہ ایوب خان 67 % ووٹ لے کے جیت گئے۔ اسی رات گوہر ایوب سپوت غاصب جمہوریت جیت کے نشے میں کراچی کی آبادیوں پے پل پڑے، گولیاں برسائیں، 56 کو قتل اور سیکڑوں کو زخمی کیا۔ گھر و کاروبار نذر آتش کیے۔ کراچی والوں کو فاطمہ جناح اور جمہوریت کا ہراول دستہ ہونے کی سزا دی گئی۔

وقت گزرتا گیا۔ دو جنوری پینسٹھ کے الیکشن کے دو سال بعد جولائی 1967ء کو یہ عظیم اور حق پرست رہنمائے قوم اور مادر ملت رخصت ہوئیں۔ جنازے میں پانچ لاکھ کا مجمع تھا۔ کوشش پوری کی گئی کہ اپنی سازشوں، دوران انتخابات اور جیت کے بعد کی گئی قبیح و ذلت آمیز حرکات کو تاریخ میں دفن کر دیا جائے۔ دنیا کو قائد کی ایک غیر فعال، چھوٹی بہن یاد رہ جائے، نئی نسل کو بس یہی ایک سیدھی کہانی سنائی جائے کہ فاطمہ جناح، قائد کی چھوٹی بہن تھیں۔ شادی وادی ہوئی نہیں تھی۔ ان کے بعد اکیلی رہ گئیں۔ ہم سب ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ جیسے سب کو جانا ہے، ایسے ہی ایک روز وہ بھی قوم کو سوگوار چھوڑ گئیں۔

باقی سب قالین کے نیچے، الماری کے پیچھے، تاریخ کے نہاں خانوں میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے، خلق خدا کے حق میں اٹھائی کوئی آواز رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس میں وہ منصف نہ مذہب دیکھے، نہ ملت نہ نسل، نہ رنگت۔ بظاہر فتح مند نا واقف ہوتے ہیں کہ جو صدائے حق گھونٹ دی جائے، اس کی باز گشت ظلم کے لئے صور ثابت ہوتی ہے۔ لوٹ کے آتی ضرور ہے۔ مادر ملت کی وفات پر حبیب جالب نے لکھا تھا

اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے سوتوں کو جگانے والے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).