خبر میں صحیح اور غلط کا انتخاب کیسے کیا جائے؟


آپ ایک آزاد شہری ہیں۔ آئین آپ کو سیاست کا حق دیتا ہے۔ آپ یہ حق استعمال کریں یا نہ کریں، ووٹ دیں یا نہ دیں، سیاسی نظریہ رکھیں یا نہ رکھیں، کسی سیاسی جماعت میں شریک ہوں یا نہ ہوں یہ حقیقت ہے کہ سیاسی فیصلوں، آئینی پیش رفتوں اور سیاست کے مد و جزر سے آپ کی زندگی پر اچھے یا برے اثرات پڑتے ہیں۔

سیاسی معاشرے ہی بہتر اور بہتری کی امید کے حامل معاشرے ہوتے ہیں۔ سیاسی حوالے سے مردہ، غیر متحرک یا نیم متحرک سماج چند افراد یا اداروں کے رحم و کرم پر آ جاتا ہے، جو اپنے غیر معمولی تحرک اور شہریوں کی سیاسی لا تعلقی کا فائدہ اٹھا کر وسائل اور فیصلہ سازی پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ کنٹرول اتنا مستحکم ہو جاتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ اسے چیلنج کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ شہری اسے نارمل سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے چیلنج کرنے کو کوئی بے کار مشق بلکہ جرم تک سمجھنے لگتے ہیں۔

کامن سینس کا تقاضا یہی ہے کہ آپ سیاست میں واضح رائے کے ساتھ حصہ لیں۔ اور نہیں تو کم از کم ووٹ کے حق کے شعوری استعمال کے ذریعے ضرور شریک ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو سیاسی و آئینی پیش رفتوں اور اپنی زندگی پر ان کے ممکنہ اثرات کے حوالے سے کم از کم ممکنہ حد تک درست معلومات دستیاب ہوں۔ تا کہ آپ ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت اپنے تئیں درست فیصلہ کر سکیں۔

آپ کوئی گھر بناتے وقت، کسی بچے کے سکول کا انتخاب کرتے ہوئے یا کسی عزیز کا رشتہ طے کرنے میں نا پسندیدہ نتائج سے بچنے کے لیے ہوم ورک کرتے ہیں۔ ہر ممکن حد تک درست معلومات کے حصول کی سعی کرتے ہیں۔ اگر اپنی بچت کی سرمایہ کاری اور ایک فرد کے کیریئر میں اتنی احتیاط برتی جاتی ہے تو اجتماعی حیات اور قومی فیصلوں کی باگ ڈور کسی کے ہاتھ میں تھمانے کا فیصلہ کرنے میں تو مزید احتیاط اور معلومات کے حصول میں اہتمام کرنا چاہیے۔

معلومات کی دو بڑی صورتیں ہوتی ہیں۔ پہلی صورت کو خبر کہتے ہیں۔ یعنی ایک واقعے کا بیان بغیر کمی بیشی کے جیسے وہ وقوع پذیر ہوا ہو۔ خبر آپ کو اخبار اور ریڈیو ٹی وی سے ملتی ہے۔ معلومات کی دوسری صورت خبر پر کسی کا تبصرہ ہوتا ہے۔ یہ کالم کی شکل میں، سوشل میڈیا پوسٹ اور ٹی وی، ریڈیو پر مبصرین کی رائے یا وی لاگ وغیرہ کی شکل میں آپ تک آتی ہیں۔

اگر میڈیا آزاد نہ ہو اور حکومت، کسی طاقتور سرکاری یا کاروباری فرد یا ادارے کے دباؤ میں ہو، تو وہ خبر آپ تک نہیں پہنچائے گا، یا اصل حالت میں نہیں پہنچائے گا، کمی بیشی کرے گا، کچھ دکھائے گا اور کچھ چھپائے گا، ایسے پہنچائے گا جیسے طاقتور چاہے گا۔

اسی طرح مبصر آزاد نہ ہو، کسی طاقتور کا چمچہ گیر ہو، یا بنا کسی خوف یا لالچ کے ویسے ہی معروضیت سے دور اور اپنے تعصبات کا اسیر ہو تو اس کی رائے میں بھی حقیقت کا عنصر کم اور زاویہ سازی کا پہلو نمایاں ہو گا۔

تو کیا کیا جائے؟ تعصبات سے چھٹکارا پانے کی شعوری کوشش کی جائے۔ یہ کہنا آسان، کرنا مشکل ہے۔ پھر بھی کوشش کی جائے۔ مسلسل لڑا جائے۔ اور شعوری کوشش کے علی الرغم بھی لا شعوری طور پر تعصبات کا اسیر ہو جانے کے با وجود، ادراک ہونے پر پلٹا جائے۔ ”شاہین“ بننے سے اجتناب کرتے ہوئے بھی پلٹ کر تعصبات پر جھپٹا جائے۔

ایسا کیوں کیا جائے؟ صرف اپنے لیے کیا جائے۔ اپنے مفاد میں کیا جائے۔ تا کہ ارد گرد ہوتی پیش رفتوں کے حوالے سے اپنی رائے کو ہر ممکن حد تک حقیقت کے قریب لایا جا سکے۔

کیسے کیا جائے؟ کوئی لگا بندھا طریقہ نہیں۔ ہٹ اینڈ ٹرائل سے ہر کوئی اپنے لیے بہتر طریقہ تلاش اور تراش سکتا ہے۔

تم کیا کرتے ہو؟ میں لمحہء موجود میں سیاسی اور آئینی پیش رفتوں کے حوالے سے ان لوگوں اور ذرائع کو زیادہ دیکھتا اور پرکھتا ہوں، جو بظاہر میری رائے سے مختلف رائے کے حامل ہیں۔ اس طریقے سے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو اپنی رائے پر تنقید پڑھنے سے اس کے غلط یا صحیح ہونے کا اندازہ زیادہ بہتر لگایا جا سکتا ہے۔ تعریف محض پھوک بھرتی ہے۔ دوسرا اپنے جیسی رائے رکھنے والوں کو فالو نہ کر کے میرے تعصبات کا دنبہ من پسند خوراک یعنی تائیدی آرا کھا کر اصل اور وڈا دنبہ نہیں بنتا۔ دنبہ ہونے کے باوجود، ٹکریں نہیں مارتا۔ بس دنبوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتا رہتا ہے۔ ٹکر مارنے والے دنبے سے سوچنے والے دنبے بہتر ہوتے ہیں۔ اندھیری راہوں میں قربان ہونے سے بچ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).