امریکی افواج کے انخلا پر پاک افغان کو در پیش سیکورٹی چیلنج


افغان طالبان نے امریکا پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، افغان طالبان غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کر رہی لیکن امریکی و نیٹو افواج اب بھی معاہدے کے بر خلاف افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر افغان طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے کرسمس سے قبل اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کی خواہش کا عندیہ دیا تھا، جب کہ امریکی حکام کے مطابق 2021ء کے اوائل میں امریکی فوجیوں کی تعداد گھٹا کر 2500 تک کر دی جائے گی۔ افغانستان میں جب سابق صدر نے امریکی افواج کی واپسی کا ٹائم فریم دیا تھا، تو جیسے جیسے امریکا کی جانب سے افغانستان کی انخلا کی اعلان کردہ تاریخ نزدیک آ رہی تھی، امریکا کی پریشانی میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا تھا کہ افغان جنگ میں استعمال ہونے والا 50 ارب ڈالر کا ساز و سامان، واپسی کے سبب وبال اور بھاری نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

سابق صدر بارک اوبامہ نے جون 2011ء میں اعلان کیا تھا کہ جولائی 2011ء میں دس ہزار اور ستمبر 2012ء تک 33 ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ 2016ء میں اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان سے تمام امریکی فوجی بلانے کا اعلان کیا تھا، لیکن امریکی اعلانات پر کما حقہ عمل در آمد نہیں کیا گیا۔ پینٹاگون عندیہ دے چکا کہ افغانستان میں مستقل امن کے قیام تک اس کی مکمل فوج واپس نہیں جائے گی، اس لیے امریکی صدر کے اعلان کے با وجود، امریکی افواج کی موجودگی کی توسیع کر دی گئی۔

خود امریکی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اس نے جس بھی ملک میں لشکر کشی کی، وہاں سے جنگ بندی کے بعد بھی امریکی فوجی اڈے اور فوجی موجود رہے ہیں۔ اس لیے بظاہر نا ممکن ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر امریکا کا کوئی فوجی نہ ہو۔ ابتدائی طور پر پینٹاگون کی جانب سے بیان میں پانچ ہزار فوجی افغانستان میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تعداد کی ضرورت کی لحاظ سے مزید اضافے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔ کچھ یہی صورت احوال دوحہ مفاہمتی عمل معاہدے کے بعد امریکا کو در پیش ہے کہ امریکی فوجیوں کی کتنی تعداد افغانستان میں رہے گی۔ انخلا پر امریکی پالیسی بیان تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ جب تک بین الافغان مذاکرات کسی متفق سمت پر رواں ہوں گے، تو امریکا کی نقل و حرکت میں کمی ضرور واقع ہو گی۔

یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ افغان طالبان کے مستقبل میں کلیدی کردار کو دیکھتے ہوئے، کابل انتظامیہ کو بھی بھاری فوجی ساز و سامان دینے سے گریز کیا جائے گا، تا کہ کسی کے استعمال میں امریکی ٹیکنالوجی نہ آ سکے، امریکا چاہے گا کہ فوجی ساز و سامان جو افغان جنگ میں استعمال ہوا، اسے واپس لا کر کیلی فورنیا میں قائم 35 ہزار ایکڑ پر محیط ڈپو میں دوبارہ اسٹور کیا جائے۔ جہاں پہلے ہی لاکھوں جنگی گاڑیاں اور اربوں ڈالر مالیت کا دیگر سامان موجود ہے۔

امریکا اپنے فوجی ساز و سامان کسی کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتا، بالخصوص داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے بھی امریکی پالیسی میں شامل نہیں ہے کہ بھاری ساز و سامان کابل یا اسلام آباد کو دیا جائے، کیوں کہ باہمی اعتماد کی کمی واقع ہے، لیکن امریکا کو یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ اگر ریاست دفاعی ساز و سامان کے ساتھ مضبوط ہو تو شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں دشواری کا کم سامنا ہوتا ہے۔ افغانستان سے با قاعدہ انخلا پر، قوی امکان یہی رہتا ہے کہ جنگجو گروپ، مال غنیمت کو حاصل کرنے کے لیے امریکی قافلوں پر دھاوا بولتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ دنوں ہوا۔

پاکستانی اور افغانی عوام اپنے تمام تر اختلافات کے با وجود، امریکا کے ہر عمل کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکا اپنے لیے ہمدردی کے حصول میں مخلص ہے، تو اسے اپنے عمل سے بھی ثابت کرنا ہو گا۔ افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان و افغانستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنا، خود امریکا کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی جانب سے در اندازیوں اور غیر ملکی شدت پسندوں کی روک تھام اور ان کے خلاف بھر پور کارروائی کے لیے عسکری مضبوطی نا گزیر ہے۔ ملک کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی مہم جوئی کا مسلسل اثر پورے پاکستان پر ہو رہا ہے۔ امریکا عالمی امن کے لیے اپنے طرز عمل میں گنجائش پیدا کرے، جو خطے کے لیے بہتری کا مثبت قدم ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).