جمہویت کے لئے غداری


ہمارے ملک کی سر زمین ہر قسم کی آبیاری کے لئے زرخیز ہے۔ ایک طرف تو لہلاتے کھیت، دریا، پہاڑ، سمندر اور معدنیات سے لیس ہے تو دوسری طرف یہ ملک تشدد، فرقہ ورانہ فسادات، دہشت گردی، لا قانونیت اور غداروں کے ٹھپوں کے لئے ہموار بھی ہے۔ ہمارے ملک کا شروع سے یہ المیہ رہا ہے کہ جو محب وطن ہو یا آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کرے وہ غدار کہلاتا ہے۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وزیر اعظم کو غدار اور اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ وہ اس ملک میں تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ اب بھی اس کے نام سے ووٹ لینے والوں کی اسمبلیوں میں کثیر تعداد ہے۔ عوام تو بار بار ووٹ کو عزت دیتی ہے، لیکن ہم نے اب تک تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو ڈکٹیٹر آئے، ان کے نام لیوا بھی نہ رہے۔ جن کو غدار بنا کر جلاوطن کیا گیا، جیل بھیج دیا گیا اور پھانسی دی گئی ان کی جڑیں آج بھی عوام میں موجود ہیں۔ تاریخ بڑی بے رحمی سے فیصلہ کرتی ہے کہ کون تاریخ کے درست سمت میں کھڑا تھا، اور کون غلط سمت میں۔

تمام ادارے ایک چین کی طرح ہیں۔ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے، ہر ادارہ مضبوط ہو اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا قبلہ درست کرے۔

موجودہ حکومت نہ صرف نا اہل اور نالائقی کی وجہ سے عوام پر بوجھ ہے، بلکہ غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کر کے لولی لنگڑی جمہوریت بھی ثابت نہ ہو سکی۔ یہاں مذہب کو ہمیشہ سے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی رہنما اپنی دکانیں سجانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام کی عالمگیریت اور وسعت نظری کو عام کرنے اور پھیلا نے کی بجائے تنگ نظری، شدت پسندی، عدم تشدد، فرقہ ورانہ فسادات اور ایک دوسرے پر کفر کے فتوے کا پرچار کیا۔ مدرسوں کے بچے اور مذہبی لوگ ایک معتدل مزاج اور مثبت سوچ رکھنے کی بجائے تنگ نظری اور عدم برداشت کا شکار رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بم دھماکوں، قتل و غارت اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ کیوں کہ ان میں مین سٹریم سیاست سے لاتعلق ہونے کا احساس بھی بڑھ چکا تھا اور ان کے خیال میں ان کی آواز جمہوری طریقہ سے ایوانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔

مذہبی لیڈروں میں مولانا فضل رحمان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ مذہبی اور مدرسے کے لوگوں کو قومی سیاست کے دائرے میں لائے۔ اب یہ لوگ بھی جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں، ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ اسلام ایک فلاحی معاشرے کی بات کر تا ہے، جو صحیح جمہوریت اور آئین کی حکمرانی سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اب یہ بحثیں مدرسوں اور دینی حلقوں میں بھی ہوں گی۔ آہستہ آہستہ ان میں شعور ائے گا۔ وہ دو سروں کے مفادات کے لئے استعمال ہونے کی بجائے اپنی ایک معتدل سوچ پیدا ہو گی۔ اسی طرح ان میں بھی عدم تشدد، برداشت اور معاشرے میں ایک دوسروں کو سمجھنے کے مواقع ملیں گے اور وہ ایک معتدل اور نئی سوچ کے ساتھ اگے بڑھ پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).