پاکستان کے مالکوں کے نام


ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ ہمارے سارے دانشور یہی کہتے رہتے ہیں کہ سارے مسائل کی جڑ جہالت ہے۔ جب شعور نہیں ہوتا تو نہ مسئلہ سمجھ آتا ہے اور نہ اس کے حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آدھی آبادی ان پڑھ دیہاتی ہے۔ درویش پوچھنا چاہتا ہے باقی جو پڑھے لکھے ہیں وہ کیا پڑھے ہیں؟ انہیں بھی نصاب اور حالات نے عاشق بنا دیا ہے۔ یہ دو طرح کے عاشق ہیں۔ ایک جو کسی دوشیزہ کی زلف کے اسیر ہیں۔ دوسرے وہ جن پر مادی دنیا نے اپنے خمار میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہی بات کہ غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا۔

پوری دنیا کا تو پتا نہیں لیکن یہاں یہی حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی زیادہ تر یا تو شخصیت پرست ہیں یا نظریاتی۔ شخصیت پرستی نظریاتی ہونے کی طرف پہلا قدم ہے اور یہ ہر جگہ قابل اطلاق ہے۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ رجعت پسندوں کا ہے۔ یہ زیادہ تر ایران اور سعودی عرب کے قریب ہیں۔ ان کے خیال میں ان کی دینی اور دنیاوی رسمیں اور روایتی مذہبی بیانیہ کسی بھی غلطی سے پاک ہیں اور تبدیلی یا یا تصحیح کی گنجائش باقی نہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک آج کل کے ترازو میں مغربی غلاظت اور بے راہ روی کا ہونا ہے۔ لہٰذا ان کے کچھ جذبات ہیں جن کے ساتھ کھیل کر کوئی کرکٹر یا جرنیل کیا، کوئی جعلی پیر بھی الیکشن جیت جائے گا۔

میرا خیال ہے یہ اس سے بھی بڑا، غالباً ایران کے آیت اللہ خامنہ ای والا رتبہ بھی اسے دے دیں گے۔ اگر ان کا بس چلا تو یہ اسے خلیفہ بنا کر باقی اسلامی ممالک سے جنگ کر کے انہیں بھی اس خلیفہ کے ماتحت کر دیں گے۔ یہ یہیں اکتفا نہیں کریں گے۔ یہ ساری دنیا سے جنگ کریں گے اور نیوکلیئر ہتھیار بھی انہیں شاید اس فعل کی انجام دہی سے روک نہ سکیں۔

دوسرا گروہ خود کو روشن خیال، ماڈرن، لبرل یا مارکسسٹ کہتا ہے۔ ان میں سے نظریاتی لبرل، یورپ اور امریکا کو حق مانتے ہیں اور مارکسسٹس چین اور روس کو۔ پہلے لبرل ہیں اور یہ دین کو صرف مسلمان رہنے کے لیے مانتے ہیں۔ باقی تھوڑے ہیں لیکن وہ دین کو انسانی فکر سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یورپی فلسفے کی جدت اور عظمت کا مقابلہ کوئی دینی بیانیہ نہیں کر سکتا۔ دوسرا گروہ مارکسسٹس کا ہے اور یہ زیادہ تر مادی لوگ ہیں۔ انہیں زمین بہت پسند ہے اور یہ اس میں طبقات کے بیچ برابری چاہتے ہیں۔ یہ سب چوں کہ نظریاتی ہیں، اس لیے یہ سارے گروہ کچھ مسئلوں کا شکار ہیں اور اس کی وجہ یہ ملک اور اس کا نظام ہے، جس میں کسی قسم کی علمی یا معاشی ترقی کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ آپ کو پاکستان کے ہر مسئلے کی جڑ تبھی ملے گی، جب آپ سمجھیں گے کہ غربت کیا بلا ہے۔

پاکستان غریب نہیں اور نہ یہاں مہنگائی ہے۔ بس یہاں کا پیسہ صحیح جگہ لگ نہیں رہا اور لوگوں کی قیمت خرید کم ہے۔ پوری دنیا میں چیزوں کے ریٹ آئے دن اوپر ہی جا رہے ہیں اور یہ نیچے نہیں آئیں گے۔ بس لوگوں کی قیمت خرید اور مارکیٹ ریٹ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا یہاں سیاسی اور معاشی نظام مجرمانہ ہے۔ سود، نا جائز اور ظالمانہ ٹیکس ہوں یا سرمایہ داروں اور بینکوں کا دنیا کی دولت پر قابض ہو جانا، کوئی لبرل یا مذہبی گروہ یا جماعت اس پر تنقید نہیں کرتا۔

رسول اللہ ﷺ نے سود کو اللہ سے جنگ قرار دیا تھا، مگر کوئی بھی مذہبی سکالر اس پر بات ہی نہیں کرتا۔ کرتے ہیں تو پڑھے لکھے ترقی پسند۔ ظاہر ہے یہ سیاستدان اور علما کرام اسی نظام میں جی کر بہت فائدے میں ہیں۔ جس نظام میں ان کا فائدہ ہے، یہ کیوں اسے تبدیل کریں گے؟ تبدیلی تو مظلوم کی خواہش ہوتی ہے یا سلیم الفطرت انسان کی۔ میرے اس کالم کا ہدف وہی مظلوم لوگ ہیں۔

دوسرا سیاسی نظام حد سے زیادہ مجرمانہ سیاست سے پر ہے۔ میں رات 9 سے پہلے خبریں نہیں سنتا۔ لہٰذا جب بھی اس سے قبل مجھے کوئی خبر دیتا ہے کہ سیاسی منظر نامے میں یہ تبدیلی ہوئی ہے تو میں سیاستدانوں کی بجائے عوام کے بیانات دیکھتا ہوں کہ عام پاکستانی کیا کہہ رہے؟ افسوس ہوتا ہے کہ عام پاکستانی کسی لیڈر یا بیانیے ہی کو سپورٹ کر رہا ہوتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری یا ان کے پیچھے پردے بیٹھی خلائی مخلوق سب فرشتے ہیں؟

یہ ہیں کیا؟ پاکستان پاکستانیوں کا ہے۔ قیادت انہیں میں سے ہونی چاہیے۔ جب ایک مڈل کلاس آدمی جو اس ملک کی % 70 مڈل کلاس اور اس سے بھی نچلے طبقوں کا ترجمان ہوتا ہے، الیکشن نہیں جیت سکتا تو مطلب اس ملک کا معاشی اور سیاسی نظام خراب ہے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے کہ اسے فوراً تبدیل کر دیا جائے۔ اگر چہ نواز شریف نے ماضی میں بہت غلطیاں کی ہیں، لیکن انہوں نے ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کیا ہے، جو اس ملک کے نظام میں ایک تبدیلی کا مطالبہ ہے۔

یہ اچھی تبدیلی ہو گی جو عوام کی سپورٹ کی بنا نہیں آ سکتی۔ یہ تبدیلی نواز شریف کے نہیں، پاکستان کے حق میں ہے۔ باقی نواز شریف صاحب مہربانی کر کے اپنی پارٹی کو عوامی پارٹی بنائیں۔ قیادت صرف گھر سے نہیں منتخب ہونی چاہیے۔ قاضی فائز عیسٰی بھی حق بجانب ہیں کہ جب عام پاکستانی کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں، جب کہ بڑے شہروں میں مزید تعمیرات کی گنجائش ہی نہیں تو جرنیلوں اور ججوں کو اب زمین اور پلاٹ نہیں الاٹ ہونے چاہیے۔ وہ بھی اب عام لوگوں کی طرح رہنا اور ملک کی خدمت کرنا سیکھیں۔ یہ ابتری کا تصور انگریز کا تھا اور وہ بھی صرف اپنی کالونیوں میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).