مشق مشق کی بات ہے


پرانے زمانے کی بات ہے، گاؤں میں ایک مداری اپنے کرتب دکھانے آیا۔ اس کے پاس ایک بندر تھا اور ہاتھ میں تیر کمان۔ بندر کو ایک سیب دے کر دور کھڑا کیا۔ بندر نے سیب سر پر رکھا۔ مداری نے تیر کمان میں لگایا اور کمان کھینچ کر سیب کا نشانہ لیا۔ سب تماشائیوں نے سانس روک لیا۔ تیر چھوٹا تو عین سیب کے درمیان جا ٹھہرا۔ تالیاں بجیں اور بجتی رہیں۔ جب شور کم ہوا، تو پیچھے بیٹھا تیلی بولا:
”یہ تو کچھ بھی نہیں۔ بس مشق مشق کی بات ہے۔“

مداری نے بات سنی ان سنی کر دی اور بندر کو اشارہ کیا۔ بندر پھرتی سے درخت پر چڑھا۔ ایک ہاتھ بڑھا کر سیب دوبارہ پکڑا۔ مداری نے کمان کھینچی اور ٹھاک سے تیر سیدھا سیب کے اندر۔ پھر تالیوں کا شور اٹھا۔ شور تھما تو تیلی نے پھر کہا:
”مشق مشق کی بات ہے ورنہ یہ تو کوئی کمال نہیں۔“

مداری نے چند ایک اور کرتب دکھائے۔ ہر مرتبہ تمام تماش بینوں نے داد دی، مگر تیلی یہی کہتا رہا کہ بس مشق کی بات ہے۔ آخر مداری کا حوصلہ جواب دے گیا اور غصے سے تیلی کو میدان میں آنے کو کہا۔ تیلی اپنی بالٹی، بڑا چمچہ اور بوتلیں کھڑکاتا ہوا میدان میں آیا۔ مداری نے غصے سے پوچھا:
”تم یہ سب کر کے دکھا سکتے ہو، یا صرف ٹر ٹر کر کے میرا شو خراب کرنا چاہتے ہو؟“
تیلی نے نہایت تحمل سے کہا: ”نہیں صاب، میں یہ تو نہیں کر سکتا۔ البتہ یہ کر سکتا ہوں۔“

اس نے ایک تنگ سوراخ والی بوتل زمین پر رکھی۔ بڑا چمچہ بالٹی سے تیل میں بھرا۔ سر سے اونچا کیا اور تیل کی دھار بوتل میں ڈالنے لگا۔ تیل سارے کا سارا بوتل میں گرا۔ ایک قطرے تک ادھر ادھر نہ ہوا۔ پھر تیلی نے پوچھا: ”تم یہ کر سکتے ہو۔“ مداری لا جواب ہو گیا۔ بندر کو بلایا، تیر کمان بغل میں تھام کر چل پڑا۔ اور مجمع ششدر رہ گیا۔

کل ایک چھوٹے بچے کی ویڈیو دیکھی۔ وہ پوچھ رہا تھا کہ آپ کیا پریکٹس کرتے ہیں؟ کیوں کہ پریکٹس سے ہر کام میں کمال حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ شکایت کرنے کی مشق کرتے ہیں، تو آپ اس میں کمال حاصل کر سکتے ہیں۔ کر کے دیکھیے۔ آپ کو ہر موقع پر شکایت کرنے کا موقع مل جائے گا۔ آپ کو ایسے موقعوں پر بھی شکایت کا کرنے کا سلیقہ آ جائے گا، جہاں کسی کو کوئی کمی محسوس نہیں ہو گی، لیکن آپ تو ایکسپرٹ ہوں گے نا، آپ کو ضرور اس میں کوئی نا کوئی کمی مل جائے گی۔

آپ کو راستے میں بیٹھے چھولے والے سے شکایت ہو گی۔ آپ کو سبزی والے سے شکایت ہو گی۔ آپ نان بائی سے روٹی لیتے وقت بھی روٹی کے زیادہ کچا ہونے یا جلنے کی شکایت کر سکیں گے۔ آپ کو اپنے بچے کے پاس ہونے پر بھی شکایت ہو گی کہ اس نے پہلی پوزیشن کیوں حاصل نہیں کی۔ آپ اتنے مشاق ہو جائیں گے کہ ہر کھانے میں نمک، مسالے اور گھی کے کم یا زیادہ ہونے کی بھی شکایت کر سکیں گے۔

اگر آپ غصہ کرنے کی مشق کرتے رہیں گے، تو یقین جانیے، آپ سے زیادہ کمال کوئی حاصل نہیں کر سکے گا۔ آپ کو انہونی باتوں پر بھی غصہ آئے گا۔ بس میں بیٹھے ہوئے اگلی سیٹ کو رشک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اور پیچ و تاب کھائیں گے کہ بس والے نے وہاں کیوں نہیں بٹھایا۔ آپ کو اس بات پر بھی غصہ آئے گا کہ آپ سے پانچ قطار پیچھے بیٹھی خاتون کی گود میں بچہ کیوں رو رہا ہے۔ اور دو قطار آگے والی سیٹ میں خاتون کی گود کا بچہ کیوں کھل کھلا رہا ہے۔

آپ کو ساتھ میں بیٹھا مسافر اپنی کتاب کے مطالعے میں غرق ہونا بھی پسند نہیں اور دوسری طرف بیٹھے مسافر کی لگائی ہوئی خوشبو بھی زہر لگ رہی ہے۔ بس صرف مشق کرتے رہیے، مجال ہے جو خدا نہ خواستہ کوئی ایسا موقع آئے کہ آپ کو غصہ نہ آئے۔ ماتھے پر ہر وقت بارہ نہ بجے ہوں اور کبھی آپ کے ہونٹ مسکرا بھی سکیں۔ بس مشق مشق کی بات ہے۔

بعض لوگ ہر وقت فکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہاں بھی مشق مشق کی بات ہے۔ فکر مندی بھی پریکٹس مانگتی ہے۔ میری ایک رشتہ دار ہے، اسے ہر وقت کسی نا کسی مصیبت کی فکر لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ نئے سال کی خوشی میں آتش بازی کو بھی دھماکے سمجھ کر بولتی رہی۔ آپ کو فکر کرنے کا شوق ہے، تو یقین کیجیے کہ آپ اس بھینس کی فکر میں بھی دبلے ہو سکتے ہیں، جو آپ نے پالی ہی نہیں۔ آپ کو مسجد میں صف میں کھڑے نمازی کے پاؤں کے درمیاں فاصلہ بھی الجھا سکتا ہے یا اگلی صف کے نمازی کے نظر نہ آنے والے ٹخنے سے نظر نہیں ہٹے گی۔ یقین کیجیے آپ حج پر جا کر بھی دوسروں کے مناجات پر زیادہ توجہ دیں گے اور اپنی دعاؤں پر کم۔ فکر کرنے کو ان شا اللہ کوئی کمی نہ ہو گی۔ بس مشق مشق کی بات ہے۔

میری بیگم آج کل ملک سے باہر ہے۔ ہمارے وقت میں بارہ تیرہ گھنٹے کا فرق ہے۔ چناں چہ جب وہ صبح اٹھتی ہے، تو میں رات کا کھانا کھا رہا ہوتا ہوں۔ اور جب وہ دن بھر کے کام سے فارغ ہو کر رات کو فون کرتی ہے، تو میں صبح ہسپتال جانے کی تیاری کرتا ہوں۔ کل انہوں نے پوچھا کہ بی بی سی دیکھی ہے؟ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ حیرت سے بولیں: ”تمہیں نہیں معلوم، ایران میں جلوس نکل رہے ہیں اور حزب اختلاف احتجاج کر رہی ہے!“
میں نے ہنس کر کہا کہ نہیں، آج کل میں پریکٹس کر رہا ہوں۔
”پریکٹس تو آپ روز کرتے ہیں، مریض کوئی کم تو نہیں ہوتے۔“

میں نے وضاحت کی کہ نہیں، میں خوش رہنے کی پریکٹس کر رہا ہوں۔ میں دوسروں کو خوش دیکھ کر مسکرانے کی مشق کر رہا ہوں۔ میں صبر اور تحمل کی مشق کر رہا ہوں۔ بلکہ اب تو میں نے جیم جا کر ورزش کرنے کی بھی پریکٹس کر رہا ہوں، تا کہ بڑھاپے کے لئے تیاری کر سکوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہمارا اور بین الاقوامی میڈیا غصہ دلانے کی مشق کر رہا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر خبریں، اب محض ہولناک قصے رہ گئے ہیں۔ اس لئے میں نے ٹی وی چینل دیکھنا چھوڑ دیے ہیں۔ دیکھتا ہوں تو فلمیں دیکھتا ہوں۔ ڈاکیو مینٹری دیکھتا ہوں۔ میرا مشورہ ہے، آپ بھی خوش رہنے کی پریکٹس کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).