’فوج صرف جنگ کے لئے ہے‘ : ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے جواب میں


مضمون نگار: فرح عدید
مترجم: ادیب یوسفزے

قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں طبیعیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہودبھائی، ایک ممتاز پاکستانی تعلیمی اور عوامی دانشور ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے میدان میں بلکہ پاکستان میں تعلیم اور انتہا پسندی سے متعلق موضوعات پر بھی کئی بصیرت انگیز مضامین لکھے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میں ان کی زیادہ تر باتوں سے اتفاق نہیں کرتا لیکن پھر بھی ڈاکٹر ہود بھائی کا نہایت احترام کرتا ہوں۔

10 اکتوبر، 2020 کو ڈاکٹر ہودبھائی نے پاکستان کے سب سے مقبول انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے لئے ایک تحریر لکھی، جس کا عنوان تھا: ’فوج صرف جنگ کے لئے ہے‘ ، مجھے یہ تحریر کئی پہلوؤں سے مبہم محسوس ہوئی۔ بہر کیف، اس مختصر مضمون کے ذریعے، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نہ صرف ڈاکٹر ہود بھائی کی برطانیہ کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کرنے کی تصوراتی اسکیم ناقص ہے بلکہ مسلح افواج کے کردار کے بارے میں ان کا مقالہ تاریخی اعتبار سے بھی قابل اعتراض ہے۔

واضح طور پر، ڈاکٹر ہودبھائی یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ دنیا کے تمام معاشرے جیسے آج ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ کج فہمی شاید اس حقیقت کی عکاس ہے کہ انہوں نے تقابلی سیاست اور تاریخ کا باضابطہ مطالعہ نہیں کیا۔ تمام معاشروں کی موجودہ شکل ان کی ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کی ارتقائی حالت ہے۔ نظریاتی وضاحت کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ارتقا ضروری نہیں کہ ایک (یا مثبت) سمت میں ترقی کرے ؛ مثال کے طور پر، آٹھویں اور دسویں صدی کی مسلم دنیا اتنی آزاد خیال تھی جتنا موجودہ امریکہ یا برطانیہ ہیں۔ عصر حاضر کی مسلم دنیا اس یورپ جیسی ہے جسے ول ڈیورانٹ The Age of Reason قرار دیتے ہیں۔ تاریخ بہت سے قوانین اپنے فہم اور انداز میں پیش کرتی ہے لیکن یہ قوانین کبھی بھی طبیعیات کے قوانین کی طرح نہیں ہوتے ہیں۔

عین مطابق، برطانیہ کبھی اتنا آزاد خیال نہیں تھا (جہاں متنوع گروہ سکون سے رہ سکتے ہیں) جیسا کہ آج ہے۔ یہ عمل کلاسیکی لبرل ازم کے طلوع ہونے کے بعد 17 ویں صدی کے آخر میں اور 18 ویں صدی کے آغاز میں شروع ہوا تھا جسے Thamos Hobbes اور John Locke نے تجویز کیا تھا۔ نظریاتی اور نسلی اعتبار سے متنوع معاشروں کے انتظام کے لئے یہ ایک ’عملی ٹول‘ کے طور پر تجویز کیا گیا تھا۔ آزاد خیال نظریے کی آمد اور اقتدار اور خود مختاری کے نظریے سے قبل، پوپ اور بادشاہوں نے برطانیہ اور دیگر ملحقہ علاقوں پر حکومت کی۔ میں یہاں یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ معاشرے وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتے ہیں؛ ایک عظیم فکری ماضی رکھنے والے معاشرے کا موازنہ ایک ایسے ملک سے کرنا جو صرف سات دہائیاں قبل وجود میں آیا ہو ناانصافی ہی نہیں بلکہ اصولی طور پر گمراہ کن بھی ہے۔

پاکستانی نظام میں بغاوت کیوں قابل تصور سمجھی جاتی ہے؟
ڈاکٹر ہود بھائی نے ایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے :
(الف) کہ کیا وجہ ہے کہ برطانوی نظام میں فوجی بغاوت ناقابل تصور سمجھی جاتی ہے؟

اس سوال کے جواب کے لئے، کچھ اہم نکات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ؛ نوآبادیاتی ریاستوں کے بعد کا ماضی، طبقاتی تعلقات کی نوعیت، بیوروکریسی کا ڈھانچہ، اور سیاسی جماعتیں۔ دوسرے الفاظ میں، پاکستان جیسی ریاستوں میں ادارہ جاتی آمریت پسندی کی ابتدا کو سمجھنے کے لئے اداروں کی موجودہ شکل کو وسیع تر تاریخی تناظر میں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر ہود بھائی نے ڈاکٹر ششی تھرور کی Inglorious Empire : What The British Did To India، کا مطالعہ کیا ہوگا: تاہم، مجھے یقین ہے کہ انہوں نے حمزہ علوی کی تحقیق پڑھی ہوگی۔

اپنی اس بہترین تحقیق The State in Post Colonial Societies: Pakistan and Bangladesh میں ماہر عمرانیات حمزہ علوی نے استدلال کیا ہے کہ استعماری آقاؤں نے ہندوستان میں اپنی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے ایک انوکھی حکمت عملی اپنائی تھی۔ انہوں نے استدلال کیا کہ علاقائی طبقوں (دیسی متوسط اور میٹروپولیٹن استعماری متوسط طبقوں ) کو سنبھالنے اور ان پر قابو پانے کے لئے، استعماری قوتوں کے لئے ایک مضبوط ریاستی تدبیر تیار کرنا ناگزیر ہے۔ ایسا کرنے کے لئے، نوکر شاہی اور فوج کو ایک ادارے کے طور پر تیار کیا گیا تاکہ نظم و نسق برقرار رہے اور ان کی استعماریت کی بقا کو یقینی بنایا جاسکے۔ تقسیم ہند کے بعد، پاکستان میں زیادہ ترقی یافتہ ریاستی اپریٹس (فوج) اور کم ترقی یافتہ زرعی اور صنعتی طبقات موجود تھے۔

ڈاکٹر ہود بھائی کا یہ دعویٰ کہ ”برطانوی فوجی افسران، خواہ حاضر سروس ہوں یا ریٹائرڈ، ان کے ساتھ، اپنی مخصوص صلاحیتوں سے ہٹ کر ترجیحی سلوک نہیں کیا جاتا“ ، لیکن اس پہلو کو عمومی طور پر ظاہر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ موصوف اس عمل کو وسیع تر تاریخی سیاق و سباق میں دیکھنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔

آخر میں، ڈاکٹر ہود بھائی شاید یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ انھوں نے ایم آئی ٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، سوال کرتے ہیں ؛ ”بریگزیٹ سے متعلق پالیسیوں کی پیچیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے برطانوی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل موزوں رہے گا یا کیمبرج سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والا اقتصادی ماہر؟

ایک مشہور ترقی پسند مفکر کی حیثیت سے، ڈاکٹر ہود بھائی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک جمہوری معاشرے میں لوگوں کی خواہش کا احترام کریں ؛ جب اکثریت طے شدہ دائرہ اختیار کے اندر فیصلہ کرتی ہے تو اس کو جمہوریت کہتے ہیں (یہاں جمہوریت سے مطلب لبرل جزو ہے )۔ واضح طور پر، یہ ایک انتظامی سوال ہے جس کا تعین عوام کے ذریعہ کیا جاتا ہے ؛ کیمبرج یا ایم آئی ٹی سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی کے ذریعہ نہیں۔ کیمبرج یا ایم آئی ٹی سے ماہرین پالیسیوں کو فنی اعتبار سے دیکھتے ہیں، اس کا فیصلہ نہیں کرتے، ڈاکٹر!

نوٹ: میں نے قصداً ان کے مقالے کے مواد کی بجائے طریقہ کار پر توجہ دی ہے۔ کیونکہ ”کامیاب معاشروں کے لوگ جانتے ہیں کہ جو لوگ جنگوں کو اچھی طرح لڑتے ہیں وہ صنعتوں، تعلیم یا حکومت کو چلانے کے لئے موزوں نہیں ہوتے۔“ میں اب بھی نہیں جانتا کہ ڈاکٹر ہود بھائی کامیابی کی تعریف کیسے کرتے ہیں؟ یہ بحث کسی اور وقت سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).