اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایف ائی اے کو ’جسم فروشی‘ پر مجبور آذربائیجان کی خاتون کو ان کے وطن بھیجنے کا حکم


اسلام آباد ہائی کورٹ
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا ہے کہ وہ آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کو واپس ان کے وطن بھجوائیں جنہیں پاکستان میں مبینہ طور پر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔

آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ ان کو سنہ 2011 میں پاکستان میں شادی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر لایا گیا اور بعدازاں انھیں جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا رہا۔

خاتون کے وکیل ضیا احمد ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ خاتون کو چھ نومبر تک واپس ان کے ملک بھیجا جائے اور جن لوگوں نے ان کو پاکستان میں مبینہ طور پر جسم فروشی کے لیے مجبور کیا ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

ضیا احمد ایڈووکیٹ کے مطابق عدالت نے کہا ہے کہ ملک میں اگر مزید کوئی غیر ملکی یا آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں جن کو جسم فروشی پر مجبور کیا جا رہا ہے تو ان کو بازیاب کروایا جائے اور ان کو ان کے ممالک واپس بھیجا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا بڑھتا ہوا مسئلہ

’کورونا کے بعد پھر پاکستان سے انسانی سمگلنگ میں اضافہ‘

’انسانی سمگلنگ پاکستان میں صنعت بن چکی ہے‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آذربائیجان کی خاتون کی جانب سے دائرہ کردہ درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ان کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مقیم آذربائیجان سے ہی تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے شادی اور ملازمت کا جھانسہ دے کر پاکستان بلایا تھا اور بعدازاں اسلام آباد میں ہی آذربائیجان سے تعلق رکھنے والی ایک دوسری خاتون کے حوالے کر دیا جس نے ان کا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات پھاڑ کر انھیں جسم فروشی کرنے پر مجبور کیا تھا۔

متاثرہ خاتون کی ایک اور وکیل اسما مشتاق ایڈووکیٹ نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے نے عدالت کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس واقعہ کا مقدمہ درج کریں گے۔ عدالت کے حکم پر ایف آئی اے نے خاتون کا بیان بھی ریکارڈ کیا ہے۔

’خاتون کے جانے کے بعد اگر ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے خاتون کی ضرورت ہو گی تو وہ ان کے وکلا کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں متاثرہ خاتون کی جانب سے کہا گیا کہ تین سال تک اسلام آباد میں جسم فروشی کروانے کے بعد انھیں کراچی میں ایک اور آذربائیجان کی خاتون کے پاس ایک لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا۔

انھوں نے درخواست میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ مذکورہ خاتون کا شوہر نہ صرف پاکستانی ہے بلکہ وہ منشیات کے کاروبار میں بھی ملوث ہے۔ خاتون نے درخواست میں یہ بھی کہا کہ کراچی میں مقیم آذربائیجان کی خاتون کے گروہ میں ایک ازبک خاتون بھی شامل ہے۔

متاثرہ خاتون کا درخواست میں کہنا تھا کہ وہ سنہ 2019 میں اپنے ایک دوست کی مدد سے اس گروہ کے چنگل سے فرار ہوئیں اور انھوں نے کراچی میں ایدھی سینٹر میں پناہ حاصل کی تھی۔

خاتون نے درخواست میں کہا ہے کہ ایدھی سینٹر نے وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کر کے ان کی اپنے وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی مگر وزارت داخلہ نے اس کے باوجود کہ وہ پاکستان میں ظلم اور زیادتی کا شکار رہیں ان پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا تھا۔

متاثرہ خاتون نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے مطابق انھیں اپنے وطن واپس بھیجا جائے اور جن افراد نے ان کی زندگی کے دس برس ضائع کر کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ایدھی سینٹر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کر دیے ہیں۔

متاثرہ خاتون کے وکیل اور بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ انسانی حقوق کے کارکن ضیا احمد اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اب قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر کارروائی کے پابند ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس درخواست میں ہم نے وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، وزارت انسانی حقوق اور ایف آئی اے کو فریق بنایا تھا۔‘

ضیا احمد اعوان نے بتایا کہ اسلام آباد میں موجود آذربائیجان کے سفارت خانے نے خاتون کو عارضی پاسپورٹ فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی جس پر ایدھی سینٹر نے خاتون کو ٹکٹ بھی فراہم کیا تھا۔ مگر رکاوٹ اس وقت پیدا ہوئی جب وزارت داخلہ نے غیر قانونی قیام پر متاثرہ خاتون پر کئی لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔

’یہ جرمانہ ادا کرنا ایدھی سمیت خاتون کے بس میں نہیں تھا جس پر عدالت سے رجوع کیا گیا۔ عدالت نے خاتون کو مظلوم قرار دے کر اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ازالے کا حکم دیا ہے۔‘

’دس برس اذیت اور کرب میں گزارے ہیں‘

متاثرہ خاتون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پاکستان میں کام کر کے اپنے خاندان کی مدد کرنے آئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میری کسی دولت مند خاندان میں شادی ہو گی اور اگر شادی نہ بھی ہوئی تو مجھے کوئی ایسی ملازمت مل جائے گی جس سے میں اپنے خاندان کی مالی مدد کر سکوں گی۔‘

خاتون کے مطابق ’جب میرا پاسپورٹ پھاڑا گیا تو اس کے بعد میں گروہ کے ہاتھوں بے بس ہو گئی تھی اور خود کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اچھے دنوں کی خواہش کیا کرتی تھی۔‘

خاتون کا کہنا تھا کہ ’مجھے اسلام آباد کے پوش علاقوں اور ایف سیون میں موجود بڑے بنگلوں میں جسم فروشی کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ جبکہ کراچی میں ساحل سمندر کے قریب واقع پوش علاقے میں ہماری رہائش گاہ تھی اور وہاں ہی پر یہ سارا کاروبار چلتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس عرصے کے دوران مجھے تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ کاہگوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنی ہوں۔ کراچی کے ایک شخص نے مجھ سے شیشہ استعمال کروایا تھا۔ جبکہ مجھے میری نائیکہ بھی نشے کے انجیکشن لگاتی تھی۔‘

متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ’تقریباً دو سال پہلے میں نے کسی طریقہ سے ایدھی سینٹر میں پناہ حاصل کی تھی۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جسم فروشی سے جو کچھ رقم مجھے ملتی تھی وہ میں اپنے خاندان والوں کو بھیج دیا کرتی تھی۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد خاتون کا کہنا تھا کہ ’مشکل ترین حالات میں مدد فراہم کرنے والے ایدھی اور اپنے وکیل کی بے حد مشکور ہوں۔ اب امید ہے کہ جلد ہی میری اپنے وطن واپسی ہو جائے گی۔ مگر میں نے دس سال جس اذیت اور کرب میں گزارے ہیں وہ میں بتا نہیں سکتی ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ مجھے اس حال تک پہنچانے والوں کے خلاف حکومت پاکستان کارروائی کرے۔ عدالتی فیصلے کے بعد امید ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کریں گے۔‘

انسانی سمگلنگ پاکستان پر پابندیوں کا خدشہ

غیر قانونی تارکین وطن

سال 2019 میں امریکہ کی حکومت کی جانب سے انسانی سمگلنگ کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ ’ٹریفک ان پرسن‘ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں جسم فروشی کے لیے خواتین کی انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت کی جانب سے اس بارے میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

ضیا احمد اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت ہر سال انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ ’ٹریفک اِن پرسن‘ جاری کرتی ہے۔

’اس رپورٹ میں ہمارے کچھ اقدامات کی بدولت پاکستان گزشتہ برسوں میں واچ لسٹ پر نہیں تھا مگر اس سال واچ لسٹ پر موجود ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان نے خواتین کے انسانی سمگلنگ کے بارے میں واضح اقدامات نہ اٹھائے تو پاکستان پر بین الاقوامی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp