سعید باروی، ایک صحافی نہیں لیہ کی صحافت تھے!


زندگی ایک مختصر سفر ہے، جس میں ہر انسان مسافر ہے۔ جیسے جیسے جس کی منزل آ جاتی ہے، اس کی زندگی کا سفر تمام ہو جاتا ہے۔ جانا تو سب نے ہے مگر کچھ لوگ اس طرح جاتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والے خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ دنیا کی اس بھیڑ میں اپنی انفرادی شناخت پیدا کرنا اور پھر رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں میں گھر کر لینا، ایک غیر معمولی عمل ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر کچھ لوگوں کے اندر یہ خوبی قدرت کی طرف سے ودیعت کر دی جاتی ہے کہ وہ اپنے خوبصورت کردار اور عمل کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

محترم سعید احمد باروی کا تعلق بھی اسی قبیل سے تھا۔ انتہائی سادگی کے ساتھ پروقار زندگی بسر کرنے والے سعید باروی کے چہرے پر ہمہ وقت سجی مسکراہٹ اور خوش اخلاقی ان کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔ گزشتہ روز انہی کے سیل نمبر سے ان کی رحلت کا ٹیکسٹ میسج آیا تو ایک لمحے کو سکتے میں آ گیا۔ یہی تو وہ نمبر تھا، جس پر سال ہا سال ہم نے ایک دوسرے سے بات کی۔ سکرین پر نمبر شو ہوتے ہی ان کا چہرہ سامنے آ جاتا تھا۔

میرے لیے ان کی موت کا یقین کرنا، اس لیے بھی نا ممکن تھا کہ کئی سالوں سے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جب وہ میرے پاس نہ آئے ہوں یا ان سے بات نہ ہوئی ہو۔ جمن شاہ سے لیہ آتے ہی ان کی پہلی حاضری میرے پاس ہوتی تھی۔ عام طور پر وہ 10 روپے والا بسکٹ کا پیکٹ ساتھ لاتے اور میں چائے منگواتا یوں ہمارا ناشتا ہو جاتا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد، جب میں ابھی یہ نہیں جانتا تھا کہ صحافت کیا ہے، مگر میں یہ ضرور جانتا تھا کہ صحافی یہ ہے، صرف میں ہی نہیں، لیہ میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک، شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو، جو سعید باروی کو بطور صحافی نہ جانتا ہو۔ سر پر پگڑی باندھے باریش چہرے پر عینک سجائے، عام طور پر سفید سوٹ پر کالی واسکٹ پہنے، ہاتھ میں اخبارات کا چھوٹا سا بنڈل اور ایک ہینڈ بیگ لیے، وہ شہر کی کسی نہ کسی سڑک پر پیدل چلتے ہوئے نظر آ جاتے تھے، یا پھر وہ اکثر کرائے پر بائیسکل لے کر، اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے رہتے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے ان کا چھوٹا سا ہینڈ بیگ ان کا مکمل صحافتی دفتر تھا، جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا۔ جہاں ضرورت محسوس کرتے، جہاں وقت یا جگہ میسر آتی، وہ دفتر کھول کر ڈاک کی تیاری شروع کر دیتے۔

سعید احمد باروی نوائے وقت ملتان سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا ایک طویل سفر سینیئر صحافی استاد محترم عبد الحکیم شوق کے ساتھ مل کر طے کیا۔ وہ لیہ کے سب سے پہلے ہفت روزہ نوائے تھل کو طویل عرصہ تک ایک تسلسل کے ساتھ شائع کرتے رہے۔ مجھے بھی ان کے زیر ادارت نوائے تھل میں کئی سال تک ”قلمکوف“ کے عنوان سے کالم لکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔ اکثر وہ کالم لکھنے کے لیے تحریک پیدا کرتے تھے اور خاص طور پر کسی بھی نئے لکھنے والے کی تحریر کو شامل اشاعت کر کے، ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔

سعید احمد باروی نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صحافت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ ایک مکمل صحافی تھے۔ مقامی طور پر صحافت سے وابستہ لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس تقریب میں سعید باروی موجود ہوتے، تو پھر کسی اور کی ضرورت نہ رہتی۔ وہ خبر کے معاملے میں کبھی کنجوسی نہیں کرتے تھے۔ یقیناً جب بھی لیہ کی صحافتی تاریخ زیر بحث آئے گی، تو سعید باروی کا نام نمایاں ہو گا۔

سعید باروی کو اس لیے بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا، کیوں کہ وہ ایک عوامی صحافی تھے۔ ایک عام ریڑھی بان سے لے کر سیاستدانوں تک چھوٹے سے بڑے تک سب کو ان تک با آسانی رسائی حاصل تھی اور خاص طور پر کبھی چھوٹے بڑے اور امیر غریب میں کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے۔ سب کے ساتھ یکساں محبت، شفقت اور خلوص احترام سے پیش آتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مثبت صحافت کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

ان کا قلم ہمیشہ عام لوگوں کی آواز بنا۔ لیہ کے مسائل اجاگر کرنے اور لوگوں کو در پیش مشکلات کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے، انہوں نے ہمیشہ اپنا قلم وقف کیے رکھا۔ یقیناً سعید احمد باروی کی رحلت کے بعد، لیہ کی صحافت میں جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ کیوں کہ سعید احمد باروی ایک صحافی ہی نہیں، لیہ کی مکمل صحافت تھے۔ اور ان کی وفات کے بعد صحافت کا ایک باب بند ہو گیا۔ دعا ہے کہ اللہ‎ رب العزت آقا حضورﷺ کے صدقے ان کی قبر اور حشر کی منازل آسان کرے۔ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین*


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).