سوچی کی مجبوریاں


آج سے کوئی بیس سال پہلے میں نے برما (میانمار) کے حالات پر ایک فلم دیکھی تھی، اس فلم کا نام ہے Beyond Rangoon۔ اس فلم میں ایک مغربی سیاح خاتون کو دکھایا گیا ہے، جو برما گئی تو سیاحت کی غرض سے تھیں، لیکن وہاں ان پر بہت سے چشم کشا انکشافات ہوتے ہیں۔ ان پر القا ہوتا ہے کہ رنگون کی فوج کس طرح جمہوریت کی حامی اکثریت کو طاقت سے کچل کر رکھنا چاہتی ہے۔ اس فلم میں ایک منظر ایسا ہے کہ فوج کے سامنے جمہوریت کے حامی مظاہرین پہنچتے ہیں، تو وہ ان کو رکنے کا اشارہ کرتے ہیں اور نہ رکنے پر فوجی اپنی بندوقیں تان کر چیمبر کر لیتے ہیں، مگر آنگ سان سوچی رکتی نہیں۔

وہ بڑی ہمت سے، تنہا ہی ایک فوجی کے بالکل سامنے جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ فوجی کانپنے لگتا ہے، اس لیے کہ اس کو گولی چلانے کا حکم تھا لیکن وہ سوچی پر گولی کیسے چلا سکتا تھا؟ واقعی بندوق والے کے سامنے جا کر کھڑے ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں اور وہ فلم کا منظر در اصل ایک حقیقی واقعے کی منظر کشی تھا، جو رنگون میں ہی پیش آیا تھا۔ جمہوریت کے لئے طویل جد و جہد کرنے والی ڈاؤ آنگ سان سوچی کو امن کا نوبل انعام ایسی ہی جرات پر ہی تو ملا تھا۔

لیکن چند سال قبل اقتدار میں آتے ہی سوچی کی یہ جرات کیا ہوا میں تحلیل ہو گئی، جب میانمار کی منہ زور فوج نے مفلوک الحال روہنگیا پر حتمی ہلہ بولا؟ اب سوچی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ فوجی کی بندوق کے آگے سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی۔ اس لیے کہ وہ پہلے بھی جب فوجی کی بندوق کے سامنے کھڑی ہوئی تھی، تو اس کو معلوم تھا کہ میرے پیچھے ہزاروں کا مجمع ہے، جو کبھی اس فوجی میں یہ ہمت نہ پیدا ہونے دے گا کہ وہ مجھ پر گولی چلا دے۔ مگر اب سوچی کو لگا کہ اگر میں مسلمانوں کے لئے اپنی فوج کے آگے آئی تو میری پشت پر کھڑا مجمع، میرا وہی حال کرے گا، جو مسلمانوں کا کر رہا ہے اور سوچی کو بھی بھلا مسلمانوں سے کیوں کر ہمدردی ہو سکتی ہے؟

سوچی ایک جمہوری رہنما ہے اور اس کو ووٹ دینے والے سارے ہی اکثریتی بدھسٹ ہیں، جب کہ روہنگیا ووٹ کیا دیں گے، وہ تو ہیں ہی Stateless لوگ، ہٹلر نے یورپ میں یہودیوں کے قتل عام کے لیے ایک بڑی نرالی اصطلاح ایجاد کی تھی ”Final Solution“ آج یہ برما کی فوج کا مسلمان فائنل سلوشن ہے۔ ’روہنگیاو، بنگلہ دیش بھاگ جاؤ ورنہ مار دیے جاؤ گے۔ ”پچھلے 40، 50 سال سے روہنگیا کے ساتھ اسی نوع کے حرکات جاری تھیں، لیکن اب فوج نے اچانک جو اس قدر تیزی سے سارے ہی روہنگیا کو مار بھگایا، تو در اصل اس کی وجہ بھی کمزور سوچی ہی ہے۔

وہی سوچی جو بندوق سے ڈرتی نہیں تھی۔ فوج نے اتنا بڑا اقدام، بے سوچے سمجھے نہیں اٹھایا۔ فوجی جنتا کے ذہن میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ جب ہم اتنا بڑا کام کریں گے تو سارا عالم شور مچائے گا، لیکن اب ہم پر براہء راست بات نہ آئے گی، کیوں کہ ملک تو اب جمہوری بن چکا ہے اور حکمران تو سوچی ہے۔ دوئم یہ کہ اگر سوچی ملک کی نام نہاد حکمران ہوتے ہوئے، اپنی ہی فوج کے خلاف کوئی بیان دے گی تو اس کی عالم میں کیا اوقات رہ جائے گی اور ایسی بیان بازی کی صورت میں اس کو اقتدار میں لانے والے عوام بھی اسی کے خلاف ہو جائیں گے۔ کیوں کہ عوام میں مسلمانوں سے ویسی ہی نفرت امنڈ رہی ہے، جیسی جرمنی میں یہودیوں سے تھی۔

اور اگر سوچی اس معاملے میں اپنی فوج کے خلاف جا کر کھڑی ہوتی ہے، تو فوج ایک منٹ میں سوچی کا بھی ”Final Solution“ کر دے گی کہ جمہوری حکومت ملک کے ”عظیم ترین مفاد“ کے خلاف جا رہی ہے۔ اب صورت احوال یہ ہے کہ میانمار سے عملاً 95 فی صد روہنگیا بے دخل ہو چکے ہیں اور جو بچے ہیں، وہی ہیں جو 2012ء کے فسادات کے بعد سے کیمپوں میں قید ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق میانمار نے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے، وہ نسل کشی کی خالص کتابی مثال ہے۔

ایسے نمونے تاریخ عالم میں کم ہی ہیں۔ واقعی عالمی ضمیر بھی سوچی کی طرح سو رہا ہے۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ روہنگیا لوگ یہودی ہوتے اور بدھسٹ میانمار نے یہ سب کیا ہوتا۔ روہنگیا عیسائی یا ہندو ہوتے؟ ہر مذکور صورت میں میانمار کا جغرافیہ بموں اور گولیوں سے بدل چکا ہوتا، لیکن مسلمان آج ایک عالمی روہنگیا ہیں۔ ان کی اتنی بڑی تعداد ہے، لیکن ان کو کوئی بھی کچل سکتا ہے اور عالمی ضمیر تو کیا نوبل انعام یافتہ ڈاؤ آنگ سان سوچی کا ضمیر بھی نہیں جاگتا۔ انسان ذاتی مصلحتوں کے لئے کس قدر گھناؤنے سمجھوتے کر سکتا ہے؟ سوچی نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اب اسے کسی اور بندوق کے سامنے نہیں کھڑے ہونا۔ اس نے بندوق والے سے دوستی کر لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).