فیک بک اور ہم سب


دو ہزار نادان دوستوں سے ایک دانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔ یہ تازہ آمد بر آمد ہوئی، تو سوچا کہ ذرا اس پر طبع آزمائی کی جائے۔ فیس بک پر تعلقات اور واقفیت کی ابتدا، ذاتی دوستی اور رشتہ داری، دفتری تعلق، مشترک مشاغل، فنی قابلیت اور یا پھر عناد و عصبیت کی بنیاد پر شروع ہوتی ہے۔ عناد و عصبیت پر آپ کو یقیناً اعتراض ہو گا۔ یقین جانیے فیس بک کا تمام تر دار و مدار اور کاروبار ان دو الفاظ کا مرہون منت ہے۔ وجہ؟ یہ دو بنیادی عناصر، دنیا جہاں کہ انسانوں میں مشترک ہیں۔ ان کی مقدار و تناسب میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، مگر کوئی حضرت انسان اس سے مبرا نہیں۔

فیس بک کے جدید سائنسی حسابی الگرتھم ہماری نفسیاتی کمزوریوں کو یاد رکھتے اور ان کی پرورش کرتے ہیں۔ اشتہارات اور مضامین سب زبر دستی اپ پر تھوپا جاتا ہے۔ انسانی نفسیات کی کمزوریوں کہ کاروبار یہ جانتا ہے کہ دوسروں کے متعلق منفی رائے اور تذلیل والا سنسنی خیز مواد، ہزاروں بار پڑھا اور صدقہ جاریہ کے طور پر فی سبیل اللہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایسا مرچ مسالے والی پوسٹ چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، اگر ہماری پسندیدہ سوچ کو لذت دہن مہیا کرتی ہے تو میرے جیسے نیم حکیم دانش مند دل و جان سے یقین کرتے ہیں۔

فیس بک اور دماغ کا استعمال، دو مختلف چیزیں ہیں۔ فیس بک جذبہ دل و احساسات و ذاتی پسند نا پسند کے طابع ہے۔ یعنی دماغ چاہے سچ و حقیقت کا متقاضی ہو مگر اس کتاب پر سبھی لکھیں گے ”کہ دل ہے کہ مانتا نہیں“ یہ ایسا ہی ہے کہ جس طرح منافقت کے اقرار کا حوصلہ ہم میں نہیں اور قابل تعریف کام پر مثبت حوصلہ افزائی کی جرات بھی ہمارے قومی شیوے میں شامل نہیں۔

سوشل میڈیا پر اپ کی پوسٹ یعنی مواد کی درجہ بندی کا پیمانہ اس وقت اوپر کو جاتا ہے، جب یہ کثیر تعداد میں لوگوں کو متوجہ کرے۔ کچھ لکھنے اور آگے تقسیم کرنے پر مجبور کرے۔ ایسا با قاعدہ تصدیق شدہ ڈیٹا، بہت ساری کمپنیوں مہیا کرتی ہیں، جن کا کام ہی ریٹنگ مینجمنٹ ہے اور اس میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ پوری دنیا میں تضحیک آمیز، جھوٹا، سنسنی خیز اور نا قابل تصدیق مواد سب سے زیادہ پڑھا اور آگے تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایسا مواد مسلسل اور تواتر کے ساتھ ہماری ذہنی پرورش کرتا اور رائے عامہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ سیاست، مذہب، لکھاری یا فن کار، سب بھاری سرمایہ سے اس کو جائز و نا جائز بھر پور طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال مستقبل قریب میں ٹرمپ کا امریکن الیکشن جیتنا ہو گا۔

سوشل میڈیا میں لائک اور ریٹنگ کی مصنوعی درجہ بندی میں، اول آنے کی ڈور ہم سے جانے انجانے میں بہت کچھ سچ جھوٹ لکھواتی ہے۔ فیس بک پر اپ کئی تحریر ہی آپ کی پہچان اور تربیت کی غمازی کرتی ہے۔ کسی موضوع پر آپ کی رائے یا آپ کا شیئر کیا ہوا مواد، آپ کی ذہنی پختگی اور دور اندیش ہونے کی تصویر بناتا ہے۔ آپ کئی فیس بک کے 98% دوستوں سے کبھی براہء راست ملاقات نہیں ہوتی، نہ اپ کبھی ان کے متعلق مستند رائے قائم کر سکتے ہیں۔ دوست کا لفظ ذرا غیر مناسب سا لگتا ہے، دوست نما دشمنوں کے لیے واقف کار بہتر متبادل ہے یا پھر شریکا برادری پنجابی میں دستیاب ہے۔ کچھ دوست شاید اس لفظ کی آسان تشریح چاہیں، تو یہ وہ رشتہ دار احباب ہوتے ہیں جو ہمیشہ شادی کا پورا کھانا کھانے کے بعد ٹھنڈے نانوں پر لڑائی ڈال کر سلامی دینے سے در گزر کرتے ہیں۔

فیس بک پر واقف کاروں کا معیار یا مقدار اس کا تعین اپ نے خود کرنا ہوتا ہے۔ فیک بک اور سوشل میڈیا پر غیر مستند اور جھوٹ کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ صرف جذبات اور دماغ کا مناسب امتزاج آپ کی شخصیت کا مثبت پہلو اجاگر کر سکتا ہے۔ شر پسند اور منفی سوچ کو فروغ دینے والے واقف کاروں پر اجتناب کی قینچی چلانی شروع کریں ذہنی و دینی اور دنیاوی بے چینی میں خاطر خواہ افاقہ ہو گا۔ آزمائش شرط ہے۔

ناصر اعوان، کینیڈا
Latest posts by ناصر اعوان، کینیڈا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).