جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟


وطن عزیز پاکستان میں اگر ایک سروے کرایا جائے کہ سب سے زیادہ جمہوری جماعت کون سی ہے، سب سے ایماندار جماعت کون سی ہے، سب سے پڑھے لکھے لوگ کون سی جماعت کے ہیں، سب سے موثر سٹریٹ پاور کس کے پاس ہے، قدرتی آفات و انسانی حادثات میں سب سے پہلے کون سی جماعت دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے پہنچتی ہے، تو ان سوالات کے جواب میں 90 فی صد سے زائد لوگ صرف ایک نام لیں گے: جماعت اسلامی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب لوگوں کی بہت بھاری اکثریت جماعت اسلامی کو ایسا اچھا سمجھتی ہے تو وہ پھر جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال کا جواب جماعت اسلامی کے کارکنان و رفقا یہ دیتے ہیں کہ پاکستانی عوام کا سیاسی شعور کمتر درجے کا ہے۔ رائے دہندگان کی اکثریت لالچ یا خوف کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔

ہر کسی کے نزدیک اس سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے۔ تاہم سب سے پہلے تو ہم سب جہاں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی سب سے اچھی جماعت ہے، وہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستانی قوم سیاسی شعور میں کسی کمتر درجے پر نہیں کھڑی بلکہ ہر دور کے آمر کے خلاف عوامی جد و جہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قوم جمہوریت پسند، سویلین بالا دستی کی حامی اور رول آف لا کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔

پاکستانی تاریخ سے اس کی درجنوں مثالیں ہیش کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے ناقص خیال میں جماعت اسلامی کی آج تک عوام کا انتخاب نہ بننے کی سب سے بڑی وجہ جمہوری عمل کا مسلسل جاری نہ رہنا ہے۔ مثال کے طور پر آپ سوچیں کہ اگر 1947ء سے جس طرح انڈیا میں سیاسی و جمہوری عمل بغیر کسی مداخلت کے جاری ہے، اگر پاکستان میں بھی ایسا ہوتا تو عوام مختلف جماعتوں کو آزمانے کے بعد، آج سے تیس برس پہلے ہی جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ دے چکے ہوتے۔ مگر ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آزادی کے ستر برس گزرنے کے باوجود ہماری سیاست میں آج بھی طاقتور اداروں کی کھلی مداخلت ظاہر و باہر ہے۔

لہذا جماعت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ”سٹیٹس کو“ ہے، جس کے مطابق سیاست و حکومت کو کنٹرول میں رکھا جاتا ہے اور ہر تھوڑے عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی کٹھ پتلی میدان میں اتار دی جاتی ہے۔ پھر اس کٹھ پتلی میں جب ”عوامیت“ اور جمہوریت حلول کرنے لگتی ہے، تو کسی کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے اور کسی کو نا اہل قرار دے کر میدان سے باہر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح جہاں عوام سیاسی ”شہدا“ کے چکر سے نہیں نکل پاتے، وہیں جماعت اسلامی کا راستہ بھی کھوٹا ہوتا جاتا ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کا اولین ہدف، وہ طاقتور غیر جمہوری عناصر ہونے چاہئیں، جنہوں نے سارے نظام کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ جب کہ اس کے بعد جماعت کا ٹارگٹ غیر جمہوری اور کرپٹ سیاسی جماعتیں ہونی چاہئیں۔ مگر آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ جب اپوزیشن کی ساری جماعتیں ”ووٹ کو عزت دو“ کے بینر تلے اکٹھی ہو چکی ہیں تو جماعت کے محترم امیر سراج الحق صاحب نے مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کی مثال یہی ہے کہ جب کسی گھر میں ڈاکا پڑ جائے تو اس پر احتجاج کرنے کی بجائے کھڑکی کے ٹوٹنے پر واویلا کیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ آج اگر مولانا مودودی زندہ ہوتے، تو کیا وہ بھی ”ڈاکے“ کے بجائے ”کھڑکی“ ٹوٹنے کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے؟ حتی کہ قاضی حسین احمد یا منور حسن بھی کبھی ایسا نہ سوچتے۔ نجانے کن مصالح کے تحت جماعت اسلامی کو غیر موثر کیا جا رہا ہے اور اس الزام کو تقویت دی جا رہی ہے کہ جماعت ہمیشہ تاریخ کی غلط سائیڈ پر کھڑی ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ہمارا اثاثہ ہے اس لئے اس کا اس طرح ضیاع نا قابل برداشت ہے۔ ستر سالہ تاریخ میں پہلی بار سویلین بالا دستی کا نعرہ گھر گھر پہنچ چکا ہے اور قوم کی اکثریت اس کی اہمیت کو سمجھ چکی ہے، خوف کی فضا کا خاتمہ ہو رہا ہے اور پہلی بار غیر جمہوری عناصر بیک فٹ پر جا رہے ہیں، یعنی تاریخ ایک نیا موڑ لینے کو ہے، اس موقع پر جماعت کا غلط نشانہ اس کے مستقبل کے لئے تباہ کن ہے۔

کیا ہم نے علامہ مشرقی کے غلط فیصلوں کے باعث، جاندار اور موثر خاکسار تحریک کو قصہء پارینہ بنتے نہیں دیکھا؟ خدانخواستہ جماعت اسلامی بھی ٹرین مس کر کے اسی راستے پر تو نہیں جا رہی۔ اس سوال پر جماعت کی صفوں میں ضرور غور ہونا چاہیے۔ مکرر عرض ہے کہ جماعت کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ غیر جمہوری قوتیں ہیں۔ آج اگر ان قوتوں کے خلاف عوامی شعور بیدار ہو چکا ہے تو جماعت کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر جماعت دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک نہیں چلانا چاہتی، تو بے شک اپنے پلیٹ فارم سے تحرک بپا کرے، مگر وہ تحریک مہنگائی کی بجائے سویلین بالا دستی کے لئے ہو۔

اس میں جماعت دوسری جماعتوں پر بھی تنقید کرے، مگر اصل ٹارگٹ مکمل جمہوریت کی بحالی ہونا چاہیے۔ ایک بار سویلین بالا دستی یقینی بن جائے تو پھر کرپٹ، نا اہل اور خاندانی بادشاہتوں پر مشتمل جماعتیں ریت کی دیوار ثابت ہوں گی۔ تاہم جماعت اسی طرح میدان سے باہر رہی اور باقی جماعتیں میدان کارزار میں ڈٹی رہیں، جمہوری حقوق کی بحالی میں کامیاب ہو گئیں اور عوامی انتخاب بن گئیں، تو پھر عوام کا سیاسی شعور ناپنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں ہی جھانکنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).